Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Maaye Ni Main Kinnu Aakhan

Maaye Ni Main Kinnu Aakhan

مائے نیں میں کنوں آکھاں

2004 کی گرمیوں کی ایک صبح، منہ اندھیرے لینڈ لائن فون بجنا شروع ہو گیا، دل پریشان کہ اتنی صبح کس کا فون ہو سکتا ہے، جا کے فون اٹھایا تو امی تھیں۔

"بیٹا گاؤں میں فوتگی ہو گئی ہے۔۔ تمہاری ساس امی کے قریبی رشتہ دار ہیں۔۔ تو سب کو جانا پڑے گا۔۔ تم تیار ہو جانا۔۔ تمہارا بھائی تمہیں گھر سے لے، لے گا۔۔ رات کو اس لئے نہیں بتایا کہ تم سو گئی ہوگی۔۔ تو بے آرام نہ ہو جاو۔

"ٹھیک ہے امی۔۔ اور کون، کون جا رہا ہے بھائی کے ساتھ۔

میں نے جمائی لیتے ہوئے امی سے پوچھا، تم دونوں بہنیں، تمہاری بھابھی اور دونوں بچے گاڑی پہ چلے جانا۔۔ میں بس پہ آ جاؤں گی۔

امی ہمیشہ ایسا ہی کرتی تھیں۔۔ ہمارے گاؤں کا راستہ مشکل تھا۔۔ راستے میں خوشاب سے بس تبدیل کرنی پڑتی ہے۔۔ تو امی ہمیشہ ہمارے جانے کا انتظام کر کے خود بس میں جاتی تھیں۔ ہماری آسانی کیلئے، ہمیشہ وہ خود تکلیف جھیل لیتی تھیں۔

ابا جی کی وفات کے بعد ہماری امی نے مردانہ وار حالات کا مقابلہ کیا۔۔ ہم سب بہن بھائیوں کو اچھی تعلیم، بہترین تربیت سے آراستہ کیا، امی ہمارے لئے ہمیشہ طاقت کا سر چشمہ رہیں تھیں۔

جب کبھی میں گھر کی زمہ داریوں سے، بچوں کی پریشانیوں سے، کسی کی زیادتی سے پریشان ہوتی تو امی کے گھر جا کے ان کی گود میں سر رکھ، انہیں سب بتاکے ہلکی پھلکی ہوجاتی اور ان کی باتوں سے نئے حوصلے اور جذبے سے سرشار ہو کے واپس آتی تھی، اور پھر سے زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتی۔

پہلی مرتبہ امی مجھے اس وقت بوڑھی اور کمزور لگیں جب امی میرے گھر میں تھیں اور سیڑھی سے اترتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا، بیٹا میرا ہاتھ پکڑنا میں گر نہ جاؤں۔۔

اور میرے دل کو بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ امی مجھ سے سہارا مانگیں، میں تو ابھی بھی ماں کا سہارا ہر قدم پر لینا چاہتی تھی۔

بس یہی چاہتی تھی کہ ماں میرا خیال رکھ رہی ہو۔۔ ہمارے لئے کچھ پکا کے لا رہی ہو۔۔ کچھ بنا کے لا رہی ہو۔۔ کچھ خرید کے لا رہی ہو۔

ہم بچے کتنے خود غرض ہوتے ہیں۔۔ والدین سے ہمیشہ سہارا لینا چاہتے ہیں۔۔ خود ان کا سہارا بننے کو تو دل مانتا ہی نہیں۔

یقین کریں یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ جن کندھوں پر سوار ہو کر آپ نے دنیا دیکھی ہو، جن کی باتوں سے آپ نے حوصلے کشید کئے ہوں۔۔ جن کی دی ہوئی ہمت سے آپ نے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھا ہو۔

جن ہاتھوں نے آپکو سہارا دے کر قدم، قدم چلنا سکھایا ہو، وہ ہاتھ بوڑھے ہوں، کمزور ہوں یا انہیں آپ کے سہارے کی ضرورت ہو۔

2 جنوری 2014 کی وہ ٹھنڈی یخ صبح میں کیسے بھول سکتی ہوں۔۔ جب امی نے مجھے فون کیا اور کانپتی ہوئی آواز میں مجھے کہا "شائد میں پھر تم سے بات نہیں کر سکوں گی۔۔ کاش تم میرے پاس ہوتی تو تمہیں کچھ لینے دینے کی ضروری باتیں بتا سکتی، اور میں اگلے دن سرگودھا سے لاہور پہنچ گئی۔۔

3 بجے جب میں امی کے پاس پہنچی تو ازکہ (بھتیجی) کا ہاتھ پکڑ کر امی واش روم سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ رہی تھیں، مجھے دیکھ کر امی نے کھڑے کھڑے دونوں بانہیں پھیلا دیں اور میں بھاگ کے ان کے سینے سے جا لگی۔

امی کی مخصوص خوشبو سے جیسے میرا دل کو سکون مل گیا۔۔ دماغ جیسے فکروں سے آزاد ہو گیا۔۔ رات 8 بجے تک ہم باتیں کرتے رہے۔۔ ساڑھے آٹھ بجے امی سارے معاملات مجھے بتا کر کے خود لیٹ گئیں۔۔ شائد آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا، ازکہ نے زور سے مجھے پکارا " پھپھو۔۔ اماں کو دیکھیں۔

میں امی کے پاس ہی لیٹی ہوئی تھی-دیکھا تو امی پرسکون نیند سو چکی تھیں۔۔ کبھی نہ جاگنے کیلئے۔۔

امی۔۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا، جب آپ کو یاد نہ کیا ہو۔۔ جب آپ کی ضرورت محسوس نہ کی ہو۔۔ جس رات میں رو کے نہ سوئی ہوں، ہر دن کے ساتھ آپ کی یاد زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے۔

کبھی کسی نے اس محبت سے حال نہیں پوچھا جس طرح آپ میری فکر کرتی تھیں۔۔ جس طرح آپ میرے چہرے کو دیکھ کر پتہ لگا لیتی تھیں کہ میرے اندر کوئی پریشانی چھپی ہوئی ہے۔

امی آپ سے ملنے کیلئے۔۔ اب قیامت تک کا انتظار ہے۔۔ شائد جنت یہی ہوگی جب بچھڑے ہوئے بچے اپنی ماؤں سے ملیں گے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat