Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Kya Khoya, Kya Paya

Kya Khoya, Kya Paya

کیا کھویا، کیا پایا

یہ بات ہے کوئی 28 سال پہلے کی، میرے ہاں دو جڑواں بیٹے ہوئے تو میرے شوہر نے ایک بیٹا اٹھا کر اپنی امی کی گود میں ڈال دیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس سے پہلے بھی میرے پاس 4 سالہ ثروت اور 2 سالہ فرحت تھیں، جہاں گھر میں دو بیٹیوں کے بعد دو بیٹوں کو پا کر خوشی کی لہر دوڑ گئی وہاں میری کمزور صحت اور اوپر تلے کے بچوں کی وجہ سے دونوں چھوٹے بچوں کیلئے ہم سب پریشان تھے۔

میرے شوہر نے اپنی امی کی گود میں نعمان کیا ڈالا جیسے انہیں جینے کا بہانہ مل گیا۔ میرے سسر کی وفات اور سارے بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو کر وہ اپنے آپ کو اب فالتو۔ سمجھنا شروع ہو گئیں تھیں اور اکثر ڈپریشن کا شکار رہتی تھیں۔ اب وہ دونوں بچوں کی مالش کرتی دونوں کو نہلاتی اور کپڑے بدلوا کر سلیمان کو میرے سپرد کردیتی تھیں۔

نعمان کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جاتی تھیں۔ چھ ماہ کے بعد نعمان نے خود ہی میرے دودھ سے منہ موڑ لیا تو اب وہ سارا ٹائم اپنی دادی کے ساتھ ہی رہتا۔ میں بہو ہونے کے ساتھ ساتھ ساس امی کی بھانجی بھی تھی۔ وہ فطرتاً صلح جو اور امن پسند خاتون تھیں، ہمارے آپس کے معاملات بڑے ہموار چل لیکن اوپر تلے کے بچوں نے مجھے چڑچڑا اور غصیلا بنا دیا تھا۔

میں بمشکل سارے دن میں گھر داری سمیٹتی اور رات کو بڑی بیٹی کو سکول کا پڑھاتی، نعمان ابھی چھوٹا تھا تو اکثر جب اس کی دادی رات کو سونے سے پہلے زبانی سورتیں تلاوت کرتی تو نعمان کا سر ان کے بازو پر ہوتا اور وہ ایک ہاتھ سے دادی کے کان کو ٹٹولتے ٹٹولتے سو جاتا، جبکہ سلیمان اکثر دیر تک ٹی وی دیکھتے ہوئے سوتا۔

وقت جلد ہی گزرتا چلا گیا، دونوں لڑکے بھی سکول جانا شروع ہو چکے تھے، خالہ ساس اب اکثر رات میں نعمان کو نبیوں کی زندگی کے واقعات سنایا کرتی تھیں، کبھی اپنی زندگی یا اس کے اپنے بابا کے بچپن کی باتیں سناتی۔ نعمان بہت دھیمی طبیعت کا ثابت ہورہا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی بہت زیادہ تیز نہیں تھاجبکہ سلیمان کو میں خود سکول کا پڑھاتی اور وہ بہت جلدی پڑھنا لکھنا سیکھ رہا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ خالہ ساس کی صحت کمزور ہوتی چلی گیی جبکہ گھر کے مالی حالات اچھے ہوتے چلے گئےمیں بچوں کی تعلیم کے معاملے میں حد سے زیادہ حساس تھی اب میرا زیادہ وقت بچوں کو پڑھانے میں صرف ہوتا، لیکن نعمان میرے بجائے اپنی دادی سے پڑھتا تھا۔ اس کی دادی سیدھے سادھے زمانے کی انڈر بی اے خاتون تھی جبکہ میں نے فزکس میں بی ایس کیا ہوا تھا۔

پانچویں جماعت تک دادی نے اسے اردو، انگریزی، معاشرتی علوم اور جنرل سائنس میں طاق کر دیا، لیکن الجبرا، جیومیٹری، حساب وغیرہ میں نعمان کافی کمزور رہ گیا۔ میرے اپنی ساس کے ساتھ کبھی اختلافات نہیں رہے تھے لیکن اب نعمان کی تعلیم کی وجہ سے مجھے ان سے کچھ چڑ ہوتی جارہی تھی۔ جتنی میں زیادہ وہمی تھی بچوں کی پڑھائی کو لیکراتنا ہی وہ بچوں کو تعلیم سے زیادہ اچھا انسان بنانے کی بات کرتی رہتی تھیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آج کے دور میں کوئی بھی بچہ سائنس کی پڑھائی یا کسی پروفیشنل ڈگری کے بغیر کیسے کامیاب انسان بن سکتا ہے، جن دنوں دونوں بھائیوں کے میٹرک کے پرچے قریب تھے ایک دن دونوں بھائیوں میں کچھ بحث مباحثہ ہوااور نعمان دادی کے گلے لگ کر رو پڑا۔ اس نے دادی سے سلیمان کی یہ شکائت کی تھی کہ وہ اسے حساب کے سوال نہیں سمجھاتا اور اپنے حل شدہ پرانے پرچے اس کو دیکھنے کیلئے نہیں دیتا تا کہ وہ اپنی غلطیاں ڈھونڈ کر انہیں دور کر سکے۔

جب میں نے سلیمان کو سمجھایا کہ بھائی کی مدد کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنی کلاس میں کسی کو بھی اپنی کاپیاں یا حل شدہ پرچے نہیں دیکھنے دیتا، میں نے بڑی محنت سے اپنا کام کیا ہوتا ہے یہ بھی اپنا کام محنت سے خود کرے اور مجھ سے کوئی امید نہ رکھے۔ تب بچے چھوٹے ہی تھے اس لئے میں نے زیادہ نوٹس نہیں لیا۔

سلیمان انتہائی محنتی اور ایک ایک نمبر کیلئے حریص اور کسی حد تک خود غرض ہوتا تھا اور مجھے اس پر فخر ہوتا تھا۔ ایف ایس سی کے بعد سلیمان انجینئرنگ یونیورسٹی میں چلا گیا جب کہ نعمان کے نمبر کم تھے تو اس نے سادہ پولٹیکل سائنس میں گریجویشن شروع کر دی۔ میری دونوں بیٹیاں بھی پڑھائی میں اچھی تھی، ان کی شادیاں تعلیم ختم ہوتے ساتھ ہی کر دی تھیں۔

مالی طور پر اب ہم بہتر پوزیشن میں آ چکے تھے، سلیمان ہمیشہ ہمارا قابل فخر بیٹا رہاجبکہ نعمان پڑھائی میں نہایت اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ انہی دنوں خالہ ساس کو فالج کا اٹیک ہو گیا، اب میری صحت بھی اچھی نہیں تھی لیکن نعمان نے میرا ساتھ بیٹیوں سے بڑھ کر دیا۔ ہر روز صبح دادی کا منہ ہاتھ دھلوا کر انہیں ناشتہ کروانا اور ایکسر سائز کروانا اس نے اپنے زمہ لیا ہوا تھا۔ دن کو میں خود انہیں دیکھتی رات کا کھانا نعمان دادی کو خود کھلاتا اور پھر انہیں دن بھر کی روداد سنانا اس کے معمول میں شامل تھا۔

سیدھی سادھی باتوں کو مزاح کا تڑکا لگا کر جب وہ دادی کو قصے سنا رہا ہوتا تو اسکی دادی کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے کمرے میں اس کی آوازیں سن کر بے ساختہ ہنس پڑتے، خالہ ساس کی میں نے، میرے شوہر نے اور نعمان نے بہت خدمت کی لیکن ایک سال کے اندر اندر وہ چل بسیں۔

وقت کچھ اور آگے سرکا، سلیمان کی انجینئرنگ مکمل ہو گئی تو اس نے مزید پڑھنے کیلئے باہر جانے کی ضد لگا لی۔ میرے شوہر کے پاس جو جمع جتھا تھا وہ انہوں نے نکال لیا، یہ عقلمندی کی کہ دونوں بیٹوں میں برابر رقم تقسیم کر دی۔ سلیمان جلد ہی پڑھنے کیلئے امریکہ سدھار گیا، وہیں اس نے کچھ عرصہ پہلے اپنی پسند کی انگریز لڑکی کا ہمیں بتایا اور اب اس کی شادی کو تین سال ہوچکے ہیں اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے نوازا ہے۔

اب اس کا فیصلہ ہے کہ ہم نے ادھر ہی رہنا ہے اور میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ آنے والی نسل کا کیا بنے گا۔ نعمان جو زندگی کے کسی دور میں قابل فخر نہیں رہانہ ہی لوگوں نے اسے کبھی اپنے بچوں کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کیااس نے اپنے والد صاحب سے ملی ہوئی رقم کے ساتھ چھوٹا سارا سپئر پارٹس کا کام شروع کیا، جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے چل نکلا۔ اللہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہے اور اس کا کام دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے، اس کے ایک سے زیادہ کام ہیں اور ہر جگہ پر کامیابی اس کے قدم چوم رہی ہے۔

آج اس کا کام پاکستان سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ جب وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر جاتا ہے تو وہاں بات چیت کیلئے ایک ترجمان اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی شادی میں نے اپنی نند کی بیٹی سے کی ہے اور وہ بھی اللہ کی نیک بندی ہے جس کے پاس بے تحاشا مال دولت ہے لیکن وہ ایک بڑی متوازن زندگی گزار رہی ہے۔

جس میں اچھا لباس، اچھا کھانا پینا اس کا اپنا حلقہ احباب، ملازمین سے محبت، عاجزی اور غریب پروری شامل ہے، بچوں کو بزرگوں کی دعائیں اور انکی معصوم سماعتوں میں راتوں کی تلاوت کبھی ضائع نہیں جاتی۔

آج میں سوچتی ہوں کہ زیادہ ڈگریوں سے اور زیادہ قابلیت سےیا زیادہ اچھی تربیت سے اور زیادہ اچھے انسان سے۔۔

میں نے کس سے کچھ کھویا

میں نے کس سے کچھ پایا

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat