Hazoor e Haq Se Payam Aya (5)
حضورِ حق سے پیام آیا (5)
احمد سو رہا تھا۔ تومیں نے سوچا کہ عید کے کپڑے اپنے، فاطمہ کے اور احمد کے نکال لوں فاطمہ کا عید کالہنگا کرتی اور شیفون کا دوپٹہ مکمل گوٹے کے کام والا میں نے خود گوٹا لگا کے تیار کیا تھا۔ اور آپکو پتہ ہے۔ جب نانیاں دادیاں خود کچھ بناتی ہیں۔ تو انہیں کتنی فکر ھوتی ہے۔ کہ کب بچے پہنے اور ہماری انکھیں ٹھنڈی کریں، لیکن ابھی میں نے بیگ کھولا ہی تھا۔ کہ احمد جاگ گیا۔ میں نے سوئے ہوئے کے منہ میں فیڈر ڈالا وہ دوبارہ سے آنکھیں بند کر کے سونے لگا میں ہلکے ہلکے اس کو تھپکنا شروع ہو گئی لیکن میرا وہ تھپکنا غضب ہو گیا۔
اسے اپنی ماں کے ہاتھوں کی پہچان تھی۔ وہ رونا شروع ہو گیا میں نے اسے اٹھا کے سینے سے لگانے کی کوشش کی۔ لیکن جونہی اس نے میری شکل دیکھی اس نے مجھے دھکا مارا اور خود بیڈ پہ الٹا گر کے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ میرے لیے اسکی آنکھوں میں بے انتہا اجنبیت تھی اور میرے ساتھ دوستی کرنے سے وہ یکسر انکاری تھا۔ آدھے گھنٹے میں، میں نے ھر حربہ آزما لیا۔ لیکن اسکی ایک ہی، ضد، میں نہ مانوں، آخر کار بابر کی اپنی کال آگئی پوچھنے کیلئے کہ چھوٹا تنگ تو نہیں کر رہا۔ چھوٹا صرف تنگ تو نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ اس نے حشر نشر کر کے رکھ دیا ہوا تھا۔ بہرحال بابر آ کے اس کو لے گئے۔
اب میں نے صبح کیلئے عید کی نماز کی تیاری شروع کی۔ فاطمہ کے کپڑے کھوسے(جوتے) چوڑیاں پراندہ وغیرہ۔ احمد کی شلوار قمیض واسکٹ اور میرا اپنا ڈریس میرا پلان یہ تھا۔ کہ صبح فجر کی آذان سے تھوڑی دیر پہلے ہی نکل جائیں گے۔ تاکہ اچھی سی جگہ مل جائے۔ بچے آئے تو مدینہ پاک کے بازاروں کی رونقوں کا احوال بتا رہے تھے اور میں انہیں کہ رہی تھی۔ کہ جلدی سو جاؤ۔ تاکہ صبح جلدی اٹھ سکواذانوں سے کافی دیر پہلے میں جاگ گئی اور چھوٹی لڑکیوں کی طرح سب سے پہلے تیار ہو کے بیٹھ گئی۔ راستہ آسان تھا۔ میں خود سے ہی جانا چاہ رہی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر میں انہیں کیسے ملوں گی۔
فاطمہ جب لہنگے والا لباس پہن کے چوڑیاں چھنکاتے ھوئے آئی تو اسکی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اور وہ بالکل گڑیا جیسی پیاری لگ رہی تھی۔ میں نے جلدی کرو کا شور مچائی رکھا۔ یہاں تک کہ گھر سے نکلے تو تب ازان شروع ھوئی۔ میں کافی مطمئن تھی۔ کہ آج بلڈنگ کے اندر جگہ مل جائے گی۔ لیکن جب پہنچے تو مسجد نبوی سے باہر بہت دور دور تک رش تھا۔ پاؤں رکھنے کو بھی جگہ نہ تھی۔ مسجد سے بہت دور ہمیں بھی جگہ ملی۔ آج تو سعودی گھرانوں کی خواتین اور بچیاں بھی آئی ہوئی تھیں۔
اس سے پہلے عربی بولنے والے لوگ تو بہت نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ مصر، شام اردن وغیرہ سے ہوتے ہیں۔ خاص سعودی فیمیلیزکو پہلی مرتبہ دیکھا اور انہیں چھوٹی بچیوں سے پہچانا ان بچیوں کی سج دھج نرالی تھی۔ انہون نے ٹرے اٹھائے ھوئے تھے۔ جن میں ٹافیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ سب کو بانٹ رہی تھیں۔
نماز فجر اور عید کی نماز سے فارغ ہو کے ایک دم سے رش کم ہونا شروع ھو گیا۔ منتہی میرے پاس رک گئی اور بڑی بیٹی بچوں کو لے کے واش روم چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے رش بالکل کم ہو گیاہم نے سوچا کہ بڑی بیٹی کو فون کر کے بتا دیتے ہیں اور ہم باب علی سے مسجد کے اندر جا کے بیٹھ جاتے ہیں۔ جب اندر گئے تو ایک پاکستانی بی بی سے پوچھا کہ آپکو اندر کیسے جگہ ملی ہم گھر سے بہت جلدی نکل آئے تھے پھر بھی جگہ مسجد سے بہت دور ملی۔ تو اس نے بتایا کہ بہن ہم ساری رات ادھر ہی رکے تب اند جگہ ملی۔ اس دن ہمارا خیال تھا کیونکہ آج روضہ مبارک بند ہی ہے۔ تو کچھ نفل وغیرہ پڑھ کے درود پاک پڑھ کے تھوڑا فریش ہو جائیں۔ تو تب یہاں سے نکلیں گےہم بلڈنگ کے اندر جا کے بیٹھ گئے۔ درود پاک پڑھنا شروع کر دیا۔ بڑی بیٹی بھی آگئی تو سارے دن کا پلان ترتیب دیا۔
مسجد نبوی کی بلڈنگ سے نکلتے ہوے ایسے ہی میرے زہن میں آگیا کہ روضہ مبارک کو بھی دیکھ لیں۔ پھر پتہ نہیں کب بلاوا ہو۔ دل بہت اداس ہو رہا تھا۔ جیسے اپنے کسی بہت پیارے کو چھوڑنا مشکل ہوتا۔ دل بھر بھر کے آرہا تھا، اسکے بعد تو ہم لوگوں نے مکہ سے عمرہ کی ادائیگی کرتے ہوئے واپس گھر چلے جانا تھا۔ جب ہم روضہ مبارک والی طرف پہنچے تو آگے تمام راستے کھلے ہوے ملے۔ ھم چلتے گئے۔ یہاں تک کہ ریاض الجنہ تک تمام راستے کھلے ھوئے تھے۔ انکی چشم کرم کو ہے اسکی خبرکس مسافر کو ہے کتنا شوق سفرمجھے لگا کہ شاید میرے دل کی باتیں ان تک پہنچ گئی اور میں جو اندر سے دکھی تھی کہ۔ شاید سلام پیش کیے بغیر ہی چلی جاؤنگی۔ تو آپﷺنے بلاوا بھیج دیا اور روضہ مبارک ہر تین طرف سے کھلا ہوا تھا۔ صرف ایک طرف جہاں مرد حضرات تھے وہ بند تھیں۔ ایک چبوترہ سا دیکھا تو بیٹی نے بتایا کہ یہ چبوترہ اصحابِ صفہ کاہے۔ یہاں وہ آپﷺسے دین کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں نفل پڑھے، ہم نے بڑی محبت سکون سے سلام پیش کیے۔
رش بہت کم تھا۔ اس دن تو یوں لگا کہ صرف ھمارے لیے روضہ مبارک کھلا ہے۔۔ میرے دل پہ بہت رقت طاری تھی۔ جب وہاں سے نکلے تو اس دعا کے ساتھ کہ پھر بلاوا جلد ہوآقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رہ گییاں باھر آئے۔ تو خواتین کا ایک گروہ زاروزار رو رہا تھا۔ ایک خاتون یارسولﷺ کہتی اور پھر آگے کچھ عربی میں کہتی تھی۔ اور باقی خواتین آمین کہ رہی تھیں۔ لیکن انکا رونا اور آہ وزاری جا کے سیدھی دل پہ اثر کر رہی تھی۔ بیٹی سے پوچھا تو اس نے بتایا امی یہ شام کی عورتیں ہیں جنکے بچے، بھائی، خاوند شہید ہو گئے ہیں۔ وہ رسول ﷺکو اپنے دکھڑے رو رو کے سنا رہی ہیں۔۔ اللہ ان کے حال پہ رحم فرماے۔۔ آمین
اللہ کسی قوم پہ ایسا وقت نہ لائے ہمارا پاکستان اس بھری دنیا مین ہماری پہچان ہے۔ یہ ہمارا گھرہے۔۔ ہم اس کی قدر کریں اور اسکی حفاظت کریں۔ اپنی اپنی جگہ پہ اسکی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں یہ تھا میرا سفر مکہ اور مدینہ میری دعا ہے۔ کہ اللہ پاک تمام جانے والوں کا جانا قبول فرمائیں اور جن جن کی خواہش ہے۔ انکی مقبول حاضرہوں کے وسیلے بنادیں۔ اور کسی کے طفیل میری بھی مقبول حاضرہوں کے وسیلے بنا دیں۔۔ آمین
میں جو ایک عام سی گناہگار خاتون تھی۔۔ اللہ نے مجھ پہ اپنا خاص کرم فرمایا اور مجھے اپنے گھر کا مہمان بنایا۔ آپ سب سے دعا کی ملتمس ہوں کہ میری اور میرے شوہر کی مقبول حج کی دعا کر دیں۔۔ کیا پتہ کس کی دعا اللہ پاک قبول فرمالیں۔۔ جزاک اللہ