Hazoor e Haq Se Payam Aya (3)
حضورِ حق سے پیام آیا (3)
اگلے دن وادی جن کا پروگرام تھا۔۔ میں فاطمہ اور منتہی پیچھے مریم اپنے شوہر اور چھوٹے بچے کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئے۔ ہم لوگوں نے کچھ سامان بھی خرید لیا کھانے پینے کا۔۔ باتوں میں سفر کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جلد ہی وادی جن کی پہاڑیاں شروع ہو گئیں۔۔ ہر پہاڑی کا اوپر والا سرا کسی انسانی سر کی طرح نظر آرہا تھا۔ وہاں بیٹھنے کا کچھ خاص انتظام نہیں تھا۔۔ سیاہ پہاڑیوں کو دیکھ کے دل کو خوف آرہا تھا۔۔ اور بھی لوگ گھوم پھر رہے تھے۔۔ ہم نے بھی گھوم پھر کے ادھر دیکھا۔ کسی جن سے ملاقات تو نہ ہوئی لیکن کچھ نہ کچھ ان کالے پہاڑوں کی ہیبت ضرور تھی ۔۔
ہم نے کچھ تصویریں بنائیں اور پھر جلد ہی وآپسی کیلئے نکل آئے۔۔ وآپسی پہ پانی والا تجربہ بھی ہمارے سامنے کیا گیا۔۔ ڈھلوان جگہ پہ پانی گرایا تو پانی بہہ کر نیچے جانے کی بجائے اوپر آ رہا تھا۔۔ مجھے لگتا ہے۔ کہ اسکی کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ ضرور ہوگی جس سے گاڑی بھی خود ہی چلتی چلی جاتی ہے۔ واللہ اعلم باالصوابکچھ اور جگہیں بھی دیکھنے کے بعد واپس پاکستان ہاوس پہنچے۔ رات کو جلدی سونا تھا۔ کیونکہ صبح جلدی مکہ کیلئے نکلنا تھا۔۔
اگلے دن ناشتہ سے فارغ ہو کے سامان سمیٹا اور مدینہ پاک سے نکلے۔۔ دل کو حوصلہ تھا کہ ابھی اگلے ہفتہ ڈیڑھ میں پھر آنا ہے۔۔ کچھ روزے اور عید مسجد نبوی میں کرنے کا ارادہ تھا۔ مدینہ پاک سے مکہ جاتے ہوئے میقات پہ رکےہر میقات پہ ایک خوبصورت رونق ہوتی ہے۔
اگر آپ اپنے گھر سے کچھ بھی ساتھ نہیں لائے تو بھی ہر میقات پہ آپکو عمرہ کی ضرورت کی تمام چیزوں دستیاب ہیں۔ میقات بھی مسجد عائشہ کی طرح بہت کھلا اور ہر ضروت سے آراستہ ہے۔۔ لوگ وہاں ٹوپی، تسبیح، چپل، سر پہ باندھنے والے کپڑے، احرام کے ساتھ لگانے والی مردوں کی بیلٹ غرض یہ کہ ہر چیز خرید رہے ہوتے ہیں۔ مقام میقات پہ لائینوں میں نہانے کیلئے غسل خانے بنے ہوئے ہیں۔ اگر گھر سے بھی نہا کے جائیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن لوگ وہاں پہ جا کے ہی نہانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ صفائی ہے۔۔ مدینہ پاک مین بھی مسجد نبوی کے غسل خانوں کی کمال صفائی ہے اور ہر میقات پہ بھی ہزاروں لوگوں کا زبردست انتظام ہے۔ نہا دھو کے صاف لباس پہن کے دو نفل پڑھنے ہوتے ہیں۔۔ ایک پاکستانی عورت غسل خانے کے اندر ہی کھڑی ہو کے نفل پڑھنے کیلئے ہم سے پوچھ رہی تھی کہ کدھر منہ کر کے نیت کرنی ہےاسکو پکڑ کے بچیاں مسجد کے اندر لے گئیں کہ یہاں نفل پڑھیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ آخر کیوں لوگوں کو اچھی طرح بتایا نہیں جاتا عمرہ کے تمام ارکان کے بارے میں؟
اب بڑی بیٹی قدم قدم پہ چھوٹی کو بتا رہی تھی۔ کہ اب دو نفل پڑھنے ہیں۔ اس کے بعد تم احرام میں آجاؤگی۔ خواتین کا احرام انکا اپنا لباس اور اوپر حجاب لینا ہوتا ہے البتہ حجاب کے اندر بالوں کے اوپر ایک چھوٹا رومال ایسے باندھنا ہو تا ہےکہ بال بالکل چھپ جائیں۔ احرام میں آنے کے بعد بال نہیں ٹوٹنے چاہئیں یعنی آپ کنگھی مت کریں، کسی چیز کو مارنا نہیں یعنی چیونٹی یا سر والی جوں تک کو نہیں مارنا، کسی قسم کی خوشبو نہیں لگانی، صابن بھی بغیر خوشبو والا استعمال کرنا ہے اور جتنے کپڑے احرام میں پنہنے ہیں ان ہی کپڑوں میں عمرہ پورا کرنا ہے۔۔ یعنی اگر جرابیں ہیں تو انہیں آخر تک پہنے ہی رکھنا ہے۔ اور اسی طرح باقی بھی جو کچھ آپ نے پہنا ہے اس میں سے کچھ کم یا زیادہ نہیں کرنا
ہم لوگون نے دو، دو نفل عمرہ کی نیت سے ادا کیے اللہ سے مدد کی دعا کی۔۔ ایک دفعہ۔۔ لبیک اللھم لبیک۔۔ لبیک لا شریک لک لبیک۔۔ ان الحمد والنعمتہ لک والملک۔۔ لا شریک لک پڑھا اور باہر آگئے۔۔ اب راستہ بھر ہم نے اسے ہی پڑھنا تھا۔۔ یہاں تک مسجد الحرام پہنچ گئے۔۔ مریم اور بچے آرام کرنا چاہ رہے تھےمیں اور منتہی سیدھا خانہ کعبہ جانا چاہتے تھے۔۔ آخر کار ہمیں خانہ کعبہ چھوڑ کے مریم لوگ ہوٹل چلے گئے۔۔ جب ہم پہنچے تو تہجد کی ازان ہو رہی تھی۔۔ تہجد کے ٹائم ہر روز چھوٹے چھوٹے پرندے آتے ہیں اور خانہ کعبہ کا طوااف کرتے ہیں۔۔ ہم پہنچے تو وہ منظر اپنی آنکھوں سےدیکھا۔۔ وہ شائد ابابیلیں تھیں جو اپنے مقررہ وقت پہ آئیں اپنے طواف کے چکر لگائے اور پھر اگلے دن تہجد تک کیلئے غائب ہو گئیں
منتہی کا یہ پہلا عمرہ تھا اور مجھے اپنے پہلا عمرہ بہت یادآرہا تھا جب میں پہلے عمرے کیلئے مسجدالحرام پہنچی تو میرے داماد اور بیٹی نے مجھے دائیں بائیں سے پکڑ لیا اور مجھے آنکھیں بند کر کے چلنے کا کہا اور ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی یاد دہانی کروا رہے تھے۔ کہ جیسے ہی ہم آپ کو بتائیں گے۔ کہ اب آپ خانہ کعبہ کے سامنے ہیں۔ تو آپ نے خانہ کعبہ کو پہلی نظر دیکھ کے جو دعائیں سوچی ہیں وہ مانگنی ہیں۔ میں قدم قدم سیڑھیاں اتر کے چلتی ہوئی جارہی تھی جب مریم نے میرا ہاتھ دبایااور مجھے بتایا۔ کہ امی آپ خانہ کعبہ کے بالکل سامنے ہیں آنکھیں کھولیں اور اپنی دعائیں مانگ لیں، ، جونہی میں نے آنکھیں کھولیں اور میری نگاہ خانہ کعبہ پہ پڑی نہ میرے ہوش سلامت رہے نہ ہی کچھ مانگنا یاد رہا۔۔ نہ جانے میں کہاں تھی، ، میرا دماغ کہاں تھا، میرا دل کہاں۔۔
(بہت عرصے تک بعد میں لوگوں سے بھی پوچھتی تھی کہ کیا اپ کو دعا مانگنی یاد رہی) مجھے بچوں نے ہلایا جلایا امی دعا؟ ؟
تب میرے منہ سے جو پہلا لفظ نکلا وہ سبحان اللہ تھا۔۔ اور دوسری بات جو نکلی، ، اللہ میں تو اس قابل نہیں تھی اللہ آپ بہت مہربان ہیں، آج منتہی بھی اللہ کے گھر کے سامنےتھی۔ پتہ نہیں اسکے کیا محسوسات تھے۔ لیکن جو بات اس نے مجھے کہی وہ یہ تھی کہ امی مجھے تو کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کیا میں ہی ہوں اللہ کے گھر میں۔ اللہ کا اپنے ہر بندے کے ساتھ اپنا ہی معاملہ ہے۔ کچھ لوگ بے اختیار روتے ہیں۔ کچھ پہ ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ کچھ کو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ کچھ کو سب کچھ مانگنا یاد رہتا ہے
لیکن اللہ تو سب کا اللہ ہے۔۔ وہ تو رب العالمین ہے۔۔ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہےجیسے ماں کو پتہ ہوتا ہے کہ میرا یہ بچہ کمزور ہے اس بےچارے نے تو ضد بھی نہیں کر سکنی تو اس کا خیال میں نے خود سے ہی رکھنا ہےویسے اللہ اپنے ہر بندے کے اندر چھپے ہوئے آنسوؤں اور آرزوؤں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔ اللہ اپنے سارے بندوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکتا۔
ایک بندہ پیسہ پیسہ جوڑ کے وہاں پہنچتا ہے۔۔ ایک بندہ بیماری میں بمشکل سے اٹھ کے اسے پکارتا ہے، ایک ماں چھوٹے چھوٹے بچوں کے سونے کا انتظار کرتی ہے جب وہ سوتے ہیں تو اٹھ کے اسے پکارتی ہےتو اللہ ھماری نیت، اخلاص اور عاجزی سے پیار کرنے والا رب ہے۔۔۔ شاید اسی طرح۔۔۔ وہ مہربان تو سب پہ ہے۔۔۔ وہ رحیم و رحمان تو سب کیلئے ہےلیکن اسکا معاملہ سب کے ساتھ الگ الگ ہے
پھر منتہی اور میں نے عمرہ شروع کرنے والے مقام پہ جہاں سبز روشنی ہے آکر عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کیا۔۔ طواف کے دوران ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنے کی بجاے مسنون دعائیں مسلسل پڑھتے رہےجہاں سے پہلا چکر شروع ہوتا ہے وہاں ہر دفعہ ربنا اتنا فی الدنا حسنہ و فی الا آ خری حسنہ وقنا عذاب نار پڑھنی ہوتی ہے اور ہر دفعہ حجر اسود کے سامنے گزرتے ہوئے دایاں ہاتھ اٹھا کر۔ بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ہےباقی سات چکروں میں دعائیں اگر نہیں یاد تو کتاب رکھ کے پڑھ لیں یا جو دعائیں یاد ہیں پڑھ لیں اسکے بعد مقام ابراہیم پہ دونفل پڑھے اور
ہم دونوں صفا مروہ پہ آگئیں۔۔ یہاں آپ کسی بھی زبان میں اللہ سے مانگیں توہم دونوں نے بھی اللہ کو دل کی ساری باتیں بتائیں۔۔ اسکے بعد بال کاٹے دونفل پڑھے اور عمرہ مکمل ہوا۔۔ تب فجر کی ازان ہو رہی ٹھیک کچھ دیر میں جماعت کھڑی ہو گئی نماز فجر سے فارغ ہوئے تو گھر فون کر کے چھوٹیموناکو بتایا کہ ہم دونون نےعمرہ کرلیاہے وہ اپنی دعاؤں کا پوچھ رہی تھی کہ مانگی یا نہیں منتہی مسلسل رو رہی تھی اور اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی جس نے اسے اپنے گھر کا مہمان بنایا
فجر کے بعد میں نے منتہی سے کہا کہ بیٹا مجھے اب تھوڑا آرام چاہیے ویسے تو اللہ کے گھر میں خانہ کعبہ کے سامنے بھی بلڈنگ میں ہر جگہ قالین بچھے ہوتے ہیں لیکن میں باہر صحن میں آگئی اور کھڑکیوں کے سامنے بہت کھلی جگہیں تھیں وہاں ایک کھڑکی منتخب کر کے اسکے سامنے اونچی اور کھلی سی جگہ پہ میں نے آنکھ بند کی اور سو گئی جونہی سورج بلند ہوا تو میری آنکھ بھی کھل گئی سوچنے لگی کہ کاش میں کوئی بڑی اچھی مصنفہ ہوتی۔ کاش میرے زخیرہ الفاظ میں وہ حروف ہوتے جن سے میں اس خوبصورت صبح کا احوال بتا سکتی صبح میری زندگی کی حسین ترین صبح تھی جب میری آنکھ کھلی تو میں مسجد الحرام کے صحن میں تھی۔ عمرے والے لوگوں کے گروہ آرہے تھے کچھ واپس جارہے تھے۔ صفائیوں والا عملہ مشینیں لگا کے صفائی کر رہا تھے۔۔
مجھے اٹھتا دیکھتےہی میری بیٹی بھاگ کے میرے پاس آ گئی۔ اس نے بتایا کہ امی یہاں سے ناشتہ مل جائے گا آپ یہاں ہی رکیں اور وہ بھاگ کے ناشتہ اور چائے لے آئی تب بڑی بیٹی کابھی فون آگیا کہ تیار ہو جائیں آپکو لیکر مسجد عائشہ جانا ہے تا کہ وہاں سے آپ دوسرے عمرہ کیلئے احرام باندھ سکیں
ہم سب مسجد عائشہ آگئے وہاں جاتے ہوے البیک سے لنچ کیلئے پیکنگ کروالی تھی۔ پہلے کھانا کھایا۔۔ وہاں کی دلچسپ بات وہ بلیاں تھیں جوہمارےارد گرد گھیرا ڈال کے بیٹھی ہوئی ہمارے کھانے کا ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔۔ ہم نےکھانا ختم کر کے بچا ہوا ان بلیوں کو دیا۔۔ احرام کے لوازمات پورے کر کے مسجدالحرام کیلئے روانہ ہو گئے
جاری ھے