Khatm e Nabuwat Ka Difa Aur Engineer Muhammad Ali Mirza
ختم نبوت کا دفاع اور انجینیئر محمد علی مرزا
کسی شخص کو منافق کہنا اس پہ کفر کا فتوی لگانا یہ ہم مسلمانوں میں ایک بڑی بیماری ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا صاحب کو بھی کوئی قادیانیوں کا فرنٹ مین کہتا ہے کچھ تو سیدھے الفاظ میں قادیانی ہی کہ دیتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد اب وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اب ہمیں نہیں پتا کسی کی نیت کیا ہے۔ اب ظاہری عمل کے اوپر ہی فیصلہ سنایاجاسکتا ہے۔ کسی کے دل میں کیا عقیدہ ہے، کوئی نہیں جان سکتا۔ کسی مسلمان کو کافر کہنا یا فرنٹ مین کہنا ایک بہت بڑی جسارت ہے جس کا انجام سوچ کہ بھی ڈر لگتا ہے۔
میں تقریبا چھے سال سے انجینئر صاحب کو سن رہا ہوں مجھے آج تک ان کی کسی ایک بات سے بھی یہ شائبہ نہیں ہوا کہ وہ قادیانیوں کا سپورٹر ہے۔ مجھے انجینئر صاحب کے تبلیغ کے طریقے سے، اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پہ انکے خیالات سے، حتی کہ قادیانیوں کے متعلق بھی جو انکا موقف ہے شدید اختلاف ہے۔ لیکن وہ یہ جان بوجھ کر نہیں کررہا بلکہ میرےنزدیک تو کوئی مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہوتا یہ ہے کہ انسان بعض اوقات کسے دوسرے انسان کے دلائل سے اتفاق کرجاتا ہے یا سرنڈر کرجاتا ہے۔
انجینئر صاحب کا سفر انکے مطابق بریلویت، دیوبندیت سے اہلحدیث پھر یہاں سے مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار سے ہوتا ہوا جاوید غامدی صاحب پہ جاکر اختتام کو پہنچا یہ جاوید غامدی والی بات اگرچہ انہوں نے کہی نہیں۔ مگر ان کے افکار سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کی تاریخ تک انجینئر صاحب غامدی کے بہت سارے عقائید سے اتفاق کرچکے ہیں۔ جن میں خاص طور پہ یورپ کی ترقی سے مرعوبیت اور قادیانی فتنہ اہمیت کے حامل ہیں۔
انجینئر صاحب کا موقف ہے کہ قادیانی پکے کافر ہیں۔ مگر وہ اشرف علی تھانوی، معین الدین چشتی اور مرزا قادیانی کو بھی ایک پلڑے میں رکھتے ہیں۔ وہ خود کو ختم نبوت کا اصل محافظ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جس طرح قادیانی دجال نے نبوت کا دعوی کیا ہے اس طرح ان دو اول الذکر بزرگوں نے بھی اپنے نام کے کلمے پڑھوائے ہیں انہوں نے بھی نبوت پہ ڈاکہ مارا ہے جیسے تھانوی رسول اللہ اور چشتی رسول اللہ۔ تو جیسے قادیانی کافر ہے تو یہ دونوں بزرگ بھی کافر ہیں، اگر کتابوں میں لکھے یہ واقعات سچ ہیں۔ اگر یہ واقعات سچ نہیں ہیں تو بریلوی دیوبندی ان دونوں واقعات سے اعلان براءت کریں انکی اشاعت بند کریں یا ان دو بزرگوں سے اعلان براءت کریں انکا دفاع نہ کریں۔
میں نے بھی الامداد رسالے میں اشرف علی تھانوی کے کلمہ والے واقعے اور فوائدالسالکین میں معین الدین چشتی کے کلمہ پڑھوانے کو بغور پڑھا ہے۔ دیکھیں مسلمانوں میں بزرگ پرستی تو بہت حد تک پھیلی ہوئی ہے اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ لوگ اپنے پیروں اور بزرگوں کو سچا ثابت کرنے کے لیے اپنی مرضی کی قرآن و حدیث میں تاویلات کرتے ہیں۔ لوگ اپنے عقیدے قرآن سے Justify کرتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے میرے سے عقیدہ بناو۔ میرے پیچھے چلو جیسے میں حکم دیتا ہوں۔ نہ کہ مجھے اپنے پیچھے گھسیٹتے پھرو۔ جو کہ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
بہت سے بزرگوں نے ایسے ایسے دعوے کیے ہیں جن کے سامنے معاذ اللہ رسول بھی چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی کہہ دیا گیا کہ میں خاص حالت میں تھا اپنے حواس میں نہیں تھا ورنہ میں تو رسول کا غلام ہوں اب ظاہر ہے جنون کی حالت میں کیے گئے دعوے پہ تو حد جاری نہیں ہوسکتی۔ آج بھی لوگ کہتے ہیں ہمارے پیر کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا بندہ منافق ہے۔ بھئی کیسے پتا چلا تو جواب آتا ہے کہ ہمارے بزرگ نظر والے ہیں، علم لدنی ہے انکے پاس۔ یہ مقام بہت عبادت سے ملتا ہے، انکو غیب سے مطلع کردیا جاتا ہے کہ فلانے کا کاروبار فلاپ ہوگا یا کامیاب۔ فلانے کو بچہ ملے گا یا بے اولاد رہے گا۔
ایسی خرافات ہیں ہمارے معاشرے میں۔ ایسے بزرگ نبوت کی حدود کے آس پاس کھیلتے رہتے ہیں۔ اکثر ان حدود کو کراس بھی کر جاتے ہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں، مگر پھر واپس بھی آجاتے ہیں۔ تو یہ گمراہی اس نوعیت کی نہیں ہے جیسی مرزا قادیانی کی ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ فکر گمراہی کہہ سکتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث سے احسن انداز میں تبلیغ کرنی چاہیئے۔ لوگوں کے ذہن یہ بات راسخ کرنی چاہیئے کہ وحی کا دروازہ مکمل طور پہ بند ہوچکا ہے۔ اب ولی اللہ وہی ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہو نہ کہ سینہ بہ سینہ علم یا علم لدنی کی اپنی علمی قابلیت جھاڑے۔ سارے مکاتب فکر میں حق پرست لوگ موجود ہیں جو ایسوں کے خلاف اپنی آواز بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔
اشرف علی تھانوی صاحب اور معین الدین چشتی صاحب کے یہ واقعات اپنے مریدوں پہ اپنی علمی قابلیت کا سکہ جمانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ ان واقعات کو غلط کہہ سکتے ہیں، انکی قرآن و سنت کے دلائل سے اصلاح کرسکتے ہیں کوئی مانے یا نہ مانے ایک سچے مسلمان کو دین کی تبلیغ میں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ کیونکہ دلوں کو بدلنا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر ان واقعات سے دعوی نبوت کا تو کہیں سے شائبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ آج سو سال ہونے کو آئیں۔ کبھی کسی نے ان دونوں بزرگوں کو نبی نہیں سمجھا اور نہ اپنے آپکو انکا امتی کہا ہے۔ اگر آپ ان واقعات کے زور پہ مرزا قادیانی دجال کو اور ان دونوں بزرگوں کو ایک پلڑے میں ڈالتے ہو تو یہ سراسر زیادتی ہے۔
قادیانی دجال نے کھلم کھلا نبی ہونے کا دعوی کیا تھا کہ میں نبی ہوں میرے پاس وحی آتی ہے۔ میرے ماننے والے ہی مسلمان ہیں باقی سب کافر ہیں۔ میرے پیروکار قادیانی اگر کسی قادیانی کمیونٹی سے باہر نکاح کریں گے تو انکا نکاح باطل ہے، انکا جنازہ پڑھنا باطل ہے۔ وہ مرتے دم تک اپنے اس دعوے پہ قائم رہا اور اسے پیروکار آج تک اسی عقیدے پہ قائم ہیں۔ انجینیئر صاحب یہ ہوتا ہے دعوی نبوت۔
کیا اشرف علی تھانوی صاحب اور معین الدین چشتی صاحب کی امت کہیں آپکو نظر آتی ہے۔ کیا آپکو کہیں انکا ایسا دعوی نبوت ملتا ہے۔ ہزار خرابیوں کے باوجود ہمارے اہل تشیع، دیوبندی اور بریلوی بھائی مسلمان ہیں چاہے ایک دوسرے پہ جتنے کفر کے فتوے لگاتے رہیں۔ آج بھی یہ لوگ آپس میں نکاح کرتے ہیں کبھی کفر کا فتوی نہیں لگا۔ بریلوی دیوبندیوں کی مسجدوں میں نمازیں پڑھتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں، مگر کبھی کسی نے مرتد ہونے کا فتوی نہیں لگایا۔ کبھی کسی نے دوبارہ نکاح نہیں پڑھوائے۔
اب جو لوگ ان دونوں بزرگوں کے کلمہ پڑھوانے والے واقعات کا دفاع کررہے ہیں انکے بارے میں آپ کیا کہو گے۔ ظاہر ہے اگر وہ کلمے آپکے بقول دعوی نبوت ہیں تو پھر دفاع کرنے والے تو مرتد ہوگئے۔ مجھے بتائیں اس کی تپش کہاں کہاں تک جائے گی۔ آپ ان لوگوں کو جو حضور ﷺ کو اللہ کا آخری نبی مانتے ہیں اور اپنا ایمان رکھتے ہیں۔ بجائے انکی اصلاح کے کہ اپنے عقیدہ نبوت کو اور زیادہ خالص کرلیں اگر کہیں کمی کوتاہی ہے اسکی اصلاح کرلی جائے، آپ انکوبھی قادیانیوں کے برابر لانے پہ تلے ہوئے ہیں۔
خدا کا واسطہ ہے چشتی تھانوی کی ضد چھوڑ دو۔ آخر مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار نے بھی تو تبلیغ کی ہے لاکھوں میں انکے پیروکار کہاں سے نکلے ہیں آخر اسی معاشرے سے نکلے ہیں۔ انکو قرآن و حدیث کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ان میں بھی بہت ساری خامیاں ہوسکتی ہیں مگر مجموعی طور پہ تو وہ فرقہ پرستی سے نکل آئے ہیں۔ آپ بھی یہی کام کریں لوگوں کو قرآن سے جوڑیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ ہمارا امام قرآن ہے۔ وہ جو حکم دے گا آنکھیں بند کرکےمانیں گے۔ جب لوگ قرآن کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائیں گے، جب کسوٹی قرآن ہوگا تو وہ خود بخود اپنے پیروں بزروگوں کے اعتقاد چھوڑتے جائیں گے فرقہ واریت سے باہر نکلیں گے اور انہی باتوں کو لیں گے جو قرآن کے ساتھ میل کھاتی ہوں گی۔
اب قادیانیت کی بات کرتے ہیں آپکے نزدیک قادیانی پکے کافر ہیں۔ جب وجہ آپ سے پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ پوری امت کا اس پہ اجماع ہے کہ یہ کافر ہیں۔ حوالے میں آپ نے حضورﷺ کا فرمان مبارک پیش کیا کہ پوری امت مجموعی طور پہ گمراہی پہ اکٹھی نہیں ہوسکتی۔ اب میرا سوال ہے کہ آپ نے امت چھوڑی کون سی ہے۔ اس وقت مسلمان چار بڑے مکاتب فکر میں بٹے ہوئے ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع۔
تقریباََ سارے ہی دیوبندی بھائی مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو دین کا مجدد مانتے ہیں۔ کوئی بھی تھانوی رسول والے خواب کو رد نہیں کرتا بلکہ تاویل کرتا ہے تو آپکے نزدیک تو وہ کافر ہوئے۔ پھر بریلوی بھائی بھی تقریبا سب خواجہ معین الدین چشتی صاحب کو اللہ کا ولی مانتے ہیں۔ جبکہ آپ کے نزدیک اس نے بھی نبوت پہ ڈاکا مارا ہے اس طرح معین الدین چشتی کو ماننے والے بھی کافر ٹھہرے۔ پھر ہمارے بھائی اہل تشیع مکتبہ فکر کو دیکھیں تو بزرگ پرستی اہل سنت سے کہیں زیادہ ان میں پائی جاتی ہے ان کو آپ کے قادیانی افکار کی شدت اس لیے محسوس نہیں ہوتی کیونکہ قادیانی اہل سنت کے گروہ سے نکلے ہوئے ہیں اور اہل سنت کی صفوں میں ہی دراڑ ڈال رہے ہیں ورنہ آپ کی تلوار کے نیچے تو وہ بھی ایمان سے فارغ ہیں۔
پیچھے رہ جاتے ہیں اہلحدیث۔ وہ بھی قادیانی مسلئے میں آپکے پکے مخالف ہیں اور بریلوی دیوبندیوں کے ساتھ ہیں۔ مجھے بتائیں یہ امت جو آپ کی تلوار کے نیچے ایمان سے ہی فارغ ہے انکا قادیانیوں کو کافر قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ انجینئیر صاحب آپ تو مسلمانوں کو جوڑنے آئے تھے لیکن آپ تو دوسری انتہا کی طرف چل پڑے ہیں۔ خدا کے لیے قادیانیوں کے بارے اپنے عقائید کی سمت درست کریں وہ کافر ہی نہیں بلکہ زندیق ہیں۔
یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نہیں ہے اس کے اوپر ہم سب سے بڑے طاغوت یورپ امریکہ کے غلام ہیں۔ اگر خلافت کا نظام ہوتا تو ان سب کو یا تو قتل کردیا جاتا یاپھر اسلامی حدود سے نکال دیا جاتا اور میرا یقین ہے کہ جس دن خلافت کا نظام آیا قادیانیوں کے سامنے تین آپشن رکھے جائیں گے پہلا دین اسلام میں واپس آجائیں اور قادیانی دجال سے اعلان براءت کردیں۔ دوسرا اسلامی حدود سے نکل جائیں اور تیسرا جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔
فی الحال پاکستان کی حدود میں ہمارا آئین جتنی حدود ان پر نافذ کرتا ہے کم ازکم اس پہ تو سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن حقیقت میں قادیانی آئین پامال کررہے ہیں۔ انہوں نے آج تک پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے آپکو غیرمسلم تسلیم ہی نہیں کیا اور سازشوں کے ذریعے دولت کے منہ کھول کر سادہ لوح مسلمانوں کا ایمان ضائع کررہے ہیں۔ انجینئیر صاحب آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کے ساتھ آج کے جدید دور میں قادیانی فتنے کا کیسے مقابلہ کیا جائے، اسکا حل پیش کرنا چاہیئے نہ کہ کوئی دوسری راہ اختیار کرنی چاہیئے۔ مسلمانوں نے اجماع سے اور قادیانیوں کے عقائید پہ پوری طرح جرح کرکے انکو امت محمدیہ سے نکالا اور کافرو مرتد قرار دیا ہے اور یہ سارا کام ان کی موجودگی میں کیا ہے۔ کوئی چوری چھپے ان پر یہ الزام نہیں تھوپا گیا۔
آج اگر آپ کو لگتا ہے کہ قادیانیوں کا مسلئہ ٹھیک طریقے سے حل نہیں کیا گیا تو آپ اپنے پلیٹ فارم پہ قادیانیوں کے بڑے امیر کو بلا لو اور دوسری طرف مسلمانوں کے اکابر علماء کو بلا لو۔ آمنے سامنے بیٹھ کر جب دلائل دیے جائیں گے جسے آپ مجادلہ یا مناظرہ کا جو بھی نام دیں لیں لیکن بات تو اسی طرح واضح ہوسکتی ہے اگر واقعی قادیانیوں نے اپنے عقائید میں اصلاح کرلی ہے تو علماء ان کے لیے راستہ بھی نکال لیں گے اور باقی مسلمانوں کے لیے بھی مسلئے کی تصویر واضح ہوجائے گی۔ لیکن جیسے آپ اس مسلئے کو الجھا رہے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس سے قادیانیوں کے لیے راہیں ہموار ہو رہی ہیں اور باوجود کہ آپ انکے جھوٹے نبی کو دجال ہی کہتے ہو مگر آپکی دعوت سے ان کے لیے آسانیاں اور لبرل طبقے میں انکے لیے نرمی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں اور اسی لیے انکو آپ سے کوئی مسلئہ نہیں یہ پراکسی کی ایک ٹکنیک ہے جس کا شکار آپ ہورہے ہیں۔ جبکہ باقی مسلمان اس لیے آپ کے مخالف ہیں کہ آپ انکو قادیانیوں کے برابر لانے پہ تلے ہوئے ہیں۔
آپ مولویوں کو شدت پسند کہتے ہو جبکہ حقیقت میں آپ نے بھی نام لے لے کر سارے مکاتب فکرکے بڑوں کو مخاطب کیا ہے جو کہ طرزگفتگو میں ادب کے ہی خلاف ہے اور یہ بھی شدت پسندی کی ہی ایک شکل ہے جو آپ کو نظر نہیں آ رہی۔ جس شدت سے آپ دوسرے مکاتب فکر کو للکار رہے ہیں وہ آپکی مخالفت بھی اسی شدت سے ہی کررہے ہیں میرے نزدیک تو دونوں طرف سے شدت پسندی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر اس وقت میرا موضوع آپ ہیں تو میں آپ سے ہی درخواست کروں گا کہ اپنا انداز تبلیغ تبدیل کریں۔
آپ ایک کمرے میں بیٹھ کر سمجھ رہے ہیں کہ آپکی بدولت باہر جیسے ہر طرف توحید کا دور دورہ ہوچکا ہے تو یہ آپکی خام خیالی ہے۔ ورنہ ہماری نوجوان نسل تو کہیں زیادہ لبرل ازم کی طرف جارہی ہے جس کی طرف ہمارے علماء کا دھیان ہی نہیں ہے۔ Humanism کا مذہب پوری دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد مسلمان ملکوں کو بھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کی تفصیل میں اپنے پچھلے کالموں میں بیان کرچکا ہوں۔ جبکہ ہمارے علماء ابھی تک رفع الیدین اور نماز، وضو کے مسائل میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ میرا یقین ہے کہ قادیانی شاید ہمیں مسلمان تو تسلیم کرلیں مگر وہ اپنے آپکو کافر اور مرتد کہلوانا کبھی پسند نہیں کریں گے چاہے انکو اسکے لیے ہم سے جنگ بھی کیوں نہ کرنی پڑے۔ یہ ناسور جب تک رہے ہوگا ہمارے دین میں زہر گھولتا رہے گا۔ اس کا حل ایک ہی ہے کہ ہمارے علماء جمہوریت کے گند سے باہر نکلیں اور ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی مبارک زندگی کی طرح سادگی کا نمونہ بن کر دکھائیں، عوام کے لیے عدل و انصاف کے راستے پہ کھڑے ہوجائیں اور قرآن کے ذریعے لوگوں کو توحید کا سبق یاد کروائیں اسی طرح ہی خلافت کا مبارک نظام قائم ہوگا۔ جب یہ نظام آجائے گا تو انشاء اللہ اس ناسور سے بھی ہماری جان چھوٹ جائے گی اور یورپی تہذیب کی یلغار سے بھی ہم محفوظ ہوجائیں گے۔