World Telecommunication And Information Society Day
ورلڈ ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سوسائٹی ڈے

ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سوسائٹی کا عالمی دن ہر سال 17 مئی کو منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ٹیلی کمیونیکشن کی ایجاد 1875 میں ITU کی بنیاد سے ہوئی اور سب سے پہلا عالمی ٹیلی کمیونیکیشن کا دن 1969میں منایا گیا۔ اس دن کو پہلے انٹرنیشنل ٹیلی کام یونین کے نام سے متعارف کروایا گیا تھا لیکن 17 مئی 1965 میں ٹیلی کمیونیکیشن ڈے کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ بعدازاں اس دن کا نام "انفارمیشن سوسائٹی" ہوگیا جب تیونس میں منعقدہ World Summit on the Information Society میں باقاعدہ قرادار سے پاس ہوا۔ پھر نومبر 2006 میں ITU کی منعقدہ کانفرنس بمقام ترکی میں دونوں دنوں کو اکھٹے منانے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد اس دن کو " ورلڈ ٹیلی کمونکیشن اینڈ انفارمیشن سوسائٹی ڈے" کہا جانے لگا۔
پاکستان میں بھی یہ دن خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ ٹیلی کمیونیکیشن کا شعبہ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA)، وزارت آئی ٹی اور دیگر ادارے ہر سال مختلف تقریبات اور آگاہی مہمات کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد دور حاضر میں ٹیلی کام کی اہمیت و افادیت اور دیگر متعلقہ امور کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنا اور ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جن کی محنت اور کاوش سے آج ہم اپنی روز مرہ کے امور میں جدید ٹیلی کام سہولیات کا استعمال کر رہے ہیں۔
2 جون 1875 کو جب گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کیا تو پوری دنیا ایک تار کے ذریعے آپس میں جڑ گئی جس سے کوسوں دور کے لوگ بھی قریب لگنے لگے۔ برصغیر میں ٹیلی کمیونیکیشن کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ برصغیر میں برطانوی راج کے دور میں ٹیلی گراف اور ٹیلی فون نظام متعارف ہوا۔ آزادی کے بعد پاکستان کو یہ نظام وراثت میں ملا جو نہایت محدود اور صرف کچھ شہری علاقوں تک تھا۔ پاکستان میں ٹیلی فون سروس 1949 میں "پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلی گرام" ادرے نے شروع کی۔ اس وقت پاکستان میں صرف 14,000 ٹیلی فون لائنیں تھیں۔ یوں تو آج دنیا بھر میں 5G، 6G اور 7G کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن ایک وقت تھا جب کسی کے گھر میں ٹیلی فون ہوتا تو پورے محلے میں اس کا چرچہ ہوتا تھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی (ٹرنگ ٹرنگ) بجنے کے ساتھ ہی پورا گھر اس طرف متوجہ ہو جاتا تھا۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں میں یہ مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ فون کون اٹھائے گا؟
پاکستان میں PTCL کا ادارہ ٹیلی کام سیکٹر کی سب سے پرانی اور مرکزی کمپنی ہے۔ یہ ادارہ کئی دہائیوں سے پاکستانی عوام کو ٹیلیفون اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرتا آ رہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کا سفر پاکستان کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کی ترقی کا سفر ملک کے ٹیلی کمیونیکیشن نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ 1947 کے بعد پاکستان کو جو ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر وراثت میں ملا، وہ برطانوی دور کے بنیادی ٹیلی فون نظام پر مشتمل تھا۔ 1962 میں حکومتِ پاکستان نے ٹیلی کمیونیکیشن کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دی تو Pakistan Telegraph and Telephone (PT&T) ڈپارٹمنٹ کو ترقی دے کر PTC بنایا گیا۔ 1990 کی دہائی تک PTC ہی واحد ادارہ تھا جو پورے ملک میں لینڈ لائن سروس، ٹیلیگراف اور بین الاقوامی کالنگ کی سہولیات فراہم کرتا تھا۔ اس وقت ٹیلی فون لائن حاصل کرنا ایک بڑی سہولت تصور کی جاتی تھی، جو صرف مخصوص شہری طبقے تک محدود تھی۔
پاکستان نے 31 دسمبر 1995 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (PTC) کو لمیڈڈ کپمنی بنایا تو اس کا نام پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن کمپنی لمیڈڈ (PTCL) ہوگیا جس نے 01 جنوری 1996 سے پی ٹی سی ایل کے طور پر باقاعدہ کام شروع کر دیا- ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کو مزید طاقتور کرنے کی غرض سے 1980 کی دہائی میں اینا لاگ ایکسچینج سسٹم (Analog Exchange System) سے ڈیجیٹل ایکسچینج سسٹم (Digital Exchange System) کو اپنانے کے ساتھ مائیکروویو ٹیکنالوجی (Microwave Technology) متعارف کروائی۔
1980 کی آخیر دہائی میں حکومت نے یہ محسوس کیا کہ اگر ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو نجی شعبے کی شمولیت اور ریفارمز ناگزیر ہیں۔ اس کے ہی بعد پاکستان میں موبائل فون کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا اور تب سے لے کر اب تک اس میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ آج پاکستان کے Zong، Telenor اور Ufone ملک کے بڑے موبائل آپریٹرز ہیں۔ کونے کونے میں لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 12 کروڑ سے زائد 3G/4G صارفین موجود ہیں۔ Zong اور Jazz نے 5G کے تجرباتی ٹیسٹ مکمل کر لیے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک نہ صرف شہری بلکہ دیہی علاقوں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
1996 میں انٹرنیٹ کی سروس پاکستان میں آئی، جس نے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ 2003 میں ٹیلی کام سیکٹر کے کئے قانون عمداری لائی گئی جس کے بعد نجی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ آج پاکستان میں ٹیلی کام کا شعبہ ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں ٹیلی کام کے انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے جن میں 3G/4G نیٹ ورکس کا تیز پھیلاؤ، فائبر آپٹک نیٹ ورک کا وسیع ہونا (خصوصاً شہری علاقوں میں)، ڈیجیٹل پاکستان ویژن کے تحت انٹرنیٹ، ای گورننس اور ای-تعلیم کے منصوبے شامل ہیں۔
ملک کے ٹیلی کام سیکٹر نے مالی سال 24-2023 کے دوران مجموعی طور پر 956 ارب روپے کی ریکارڈ آمدنی حاصل کی ہے اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے پیش کردہ 2024 کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 23-2022 کے مقابلے میں 24-2023 کے دوران اقتصادی چیلنجز کے باوجود ٹیلی کام شعبے کی آمدنی میں 17% سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موبائل فون سروسز 91% آبادی تک پہنچ چکی ہیں، فورجی سروسز 81% آبادی کو دستیاب ہیں، ٹیلی کام سبسکرائبرز کی کل تعداد ستمبر 2024 تک 19 کروڑ 60 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق براڈ بینڈ صارفین کی تعداد جون 2023 میں 12 کروڑ 76 لاکھ سے بڑھ کر 14 کروڑ 23 لاکھ ہوگئی جبکہ موبائل انٹرنیٹ کی اوسط رفتار میں 28% اضافہ ہوا اور انٹرنیٹ رفتار 15.65 ایم بی پی ایس سے بڑھ کر 20.02 ایم بی پی ایس تک پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق سال 24-2023 کے دوران 2 کروڑ 96 لاکھ موبائل ڈیوائسز مقامی سطح پر تیار کی گئی ہیں۔
پاکستان میں فائبر آپٹک کا آغاز دو ہزار کی دہائی میں ہوا، مگر اس کی تیزی سے ترقی گزشتہ دس سال میں دیکھی گئی۔ فائبر آپٹک وہ جدید ٹیکنالوجی ہے جس میں ڈیٹا کو روشنی کی شعاعوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے، جو نہ صرف بہت تیز اورمستحکم ہے بلکہ ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی فراہمی 100 Mbps سے لے کر 1 Gbps تک مہیا کرتا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کم تاخیر (Low latency) کی وجہ سے گیمنگ (انٹر نیٹ کے ذریعے کھیلنے)، ویڈیو کالز اور اسٹریمینگ کے لیے مثالی سروس ہے۔ فائبر آپٹک میں زیادہ ڈیٹا برداشت ہے جسے بیک وقت کئی ڈیوائسز پر ایک جیسا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فائبر ٹیکنالوجی پر موسم اور دوسرے بیرونی عوامل کا اثر کاپر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر۔ بڑے فائبر انٹرنیٹ فراہم کنندگان میں اس وقت پاکستان میں PTCL واحد ادارہ ہے جو پورے پاکستان میں فلیش فائبر (Flash Fiber) کے نام سے سروس دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ Nayatel (اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، لاہور)، StormFiber (کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور)Optix، Transworld، FiberLink اور دیگر چھوٹی کمپنیاں شامل ہیں جو پاکستان کے محدود شہری علاقوں میں فائبر سرسوسز دے رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی ٹیلی کمیونیکیشن کے میدان میں جہاں ہم نے لینڈ لائن سے آغاز کیا، کاپر کیبلز(Copper Cable) کو استعمال کیا، فائبر آپٹک (Fiber Optic)کے ذریعے تیز ترین رفتار حاصل کی، تو اب ہم جدید ترین موبائل ٹیکنالوجی کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی ٹیلی کام مارکیٹ غیر ملکی کمپنیوں کے لیے پرکشش بن چکی ہے۔ Etisalat (UAE) نے PTCL میں سرمایہ کاری کیTelenor (Norway)، Zong (China Mobile) جیسے بین الاقوامی آپریٹرز کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ فائبر بچھانے، ڈیٹا سینٹرز اور 5G کے تجربات میں بھی غیر ملکی کمپنیاں دلچسپی رکھتی ہیں۔
پاکستان اب سب میرین فائبر آپٹک کیبلز جیسے کہ SEA-ME-WE-5 اور AAE-1 جیسے بین الاقوامی نیٹ ورکس کا حصہ ہے، جو ملک کو بین الاقوامی ڈیجیٹل راستوں سے جوڑتے ہیں۔ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی انٹرنیٹ رسائی نے ملک کو دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسنگ مارکیٹ بنا دیا ہے۔ یہ شعبہ براہِ راست ٹیلی کام کے فروغ سے جڑا ہے، جہاں لاکھوں نوجوان گھر بیٹھے عالمی کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کی ترقی نے گزشتہ دہائیوں میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے مطابق، جون 2024 تک ملک میں 142 ملین انٹرنیٹ کسٹمرز اور 193 ملین موبائل کسمٹرز موجود ہیں، جس کیوجہ سے انٹرنیٹ ٹیلی ڈنسٹی 58.19% اور موبائل ٹیلی ڈنسٹی 79.44% تک پہنچ گئی ہے۔
اگرچہ پاکستان نے قابلِ ذکر ترقی کی ہے، مگر کچھ چیلنجز اب بھی موجود ہیں جن میں دیہی علاقوں میں سروسز کی غیر مساوی دستیابی، انٹرنیٹ کی مہنگی قیمتیں، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی جیسے امور ہیں۔ مگر اس کے باوجود وسیع مواقع بھی بہت ہیں جیسے فری لانسنگ اور آئی ٹی ایکسپورٹ میں اضافہ، خواتین کی آن لائن شمولیت، تعلیمی و صحت کے شعبوں میں ڈیجیٹل تبدیلی جن پر توجہ دے کر ملک و ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کام کے شعبے میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت، نجی شعبہ اور ریگولیٹری ادارے (جیسے PTA اور MoITT) اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ڈیجیٹل پاکستان، فری لانسنگ، ای کامرس اور ای گورننسکے منصوبے مستقبل میں اس ترقی کو مزید وسعت دیں گے۔