Tujh Ko Kursi Thi Aziz
تجھ کو کرسی تھی عزیز
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں کا تعلق پٹنہ ہندوستان سے ہے۔ پٹنہ کی شاعرات میں آپ کا نام انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ آپ کی شاعری نازک خیالات، فکر انگیز احساسات اور بہترین استعارات وتلمیحات پر مبنی بہترین اور منفرد اسلوب کی شاعری ہے جس میں انسانی جذبات اور تجربات کی زیریں لکیر اور پرجوش کہانیوں کی عکاسی جلوہ گر ہے۔
شاعری انکشاف ذات کا وسیلہ بھی ہے اور عصری حسیت کی آئینہ دار بھی۔ اگر تخلیق کار پیچیدہ شخصیت کا مالک ہے تو اس کے تخلیقی تجربات میں بھی پیچیدگیوں کا در آنا لازم ہے۔ نازاں کے کلام میں نہ پیچیدگی ہے نہ اظہار بیان میں الجھاؤ لہذا ان کے یہاں ترسیل و ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ قاری بڑی آسانی سے ان کے اشعار کے مفہوم تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں محبت، اخلاق، آرزو اور مصائب کے ساتھ ساتھ رشتوں کی پیچیدگیوں کے موضوعات پر روشنی ڈالتی ہیں۔
واضح منظر کشی اور تاثراتی و ناصحانہ زبان کے ذریعے وہ ایک ایسا بیانیہ تیار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جس میں بلا کا جوش و ولولہ پایا جاتا ہے اور حسن عمل کا دریا موجزن رہتا ہے۔ متضاد عناصر کا استعمال جیسے غربت اور ثروت، عزت اور ذلت، ظلم اور محبت وغیرہ ان کی شاعری میں گہرائی و گیرائی کا اضافہ کرتا ہے نیز زندگی کی پیچیدگیوں پر ایک باریک تناظر پیش کرتا ہے۔ ان کی شاعری جہاں خودداری اور خود شناسی کا احساس دلاتی ہے وہیں یہ انسانی فطرت کی خصوصیت والے جذبات کے دوہرے پن کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ زبان میں سلاست، آمد و نزول کی کیفیت اور روانی ان کی شاعری کا خاصہ ہے۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں کی شاعری مختلف موضوعات، فکر انگیز خیالات اور پر خلوص جذبات کا امتزاج دکھاتی ہے پھر بھی بعض اوقات شاعری میں مسلسل موضوعاتی توجہ کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔ آپ کی غزلیں محبت سے لے کر معاشرتی مشاہدات تک متنوع موضوعات کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن ان موضوعات کے درمیان تبدیلی اچانک محسوس ہو سکتی ہے۔ مزید برآں کچھ فقرے اور استعارے اپنے اثرات کو بڑھانے کے لئے مزید تطہیر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اگرچہ اس کا کام حقیقی جذبات کی عکاسی کرنا ہے لیکن ان جذبات کو ایک مربوط بیانیہ میں ڈھالنے کے لئے ایک زیادہ منظم انداز ان کی شاعری کے مجموعی اثر کو بڑھا سکتا ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان کی شاعری روایت پسندی اور جدیدیت کے بیچ سے خراماں خراماں گزرتی دکھائی دیتی ہے اور یہی طرز بیان و اسلوب ان کی شاعری کی پہچان بن کر سامنے آتی ہے۔ وہ اپنی غزلوں میں تخلیقی آگہی کا عرفان پیدا کرکے ذہن اور احساس کے لئے نئی جوت جگاتی ہیں۔ روح کو جذبے کی طاقت عطا کرتی ہیں اور غم کو جذباتی گرمی سے متاثر کرتی ہیں۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں کی شاعری جذبات اور منظر کشی کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس سے احساسات کی ایک ایسی دلچسپ کہانی تخلیق ہوتی ہے جو کہ قارئین کو پسند آتی ہے اس کی جامع لیکن ناصحانہ اور فکر انگیز زبان کا استعمال براہ راست جذباتی تعلق کی اجازت دیتا ہے۔ متضاد جذبات کا جوڑ جیسا کہ "چاند پر دھول کے ذرات سوار ہونے لگے" اور "تکلیف دیکھ کر خوشی حاصل کرتے ہیں" جیسی سطروں میں نظر آتا ہے، توجہ حاصل کرتا ہے اور جذبات کی گہرائی تک پہنچاتا ہے۔ شاعر کی عام تجربات کو بامعنی بصیرت میں بدلنے کی صلاحیت ان کی شاعری میں عیاں ہے جو قارئین کو زندگی کی پیچیدگیوں کے بارے میں اپنے زاویہ نگاہ کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔
مجموعی طور پر اگر تجزیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں کی شاعری انسانی جذبات کی گہری کھوج کو ظاہر کرتی ہے حالانکہ ایک زیادہ بہتر موضوعاتی توجہ اور اسلوبیاتی مستقل مزاجی ان کی شاعری کے اثرات کو بلند کر سکتی ہے جذبات اور منظر کشی کا انوکھا امتزاج ان کے کام کی پہچان بنی ہوئی ہے جس میں فن بھی ہے اور معیار بھی اور جو قارئین کو انسانی دل کی پیچیدگیوں کو جاننے کی دعوت دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعہ کے لئے ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں کی شاعری کے چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں
دیکھئے آدھی ادھوری اس کی چاہت واہ واہ
خود نہیں میرا مگر مجھ سے محبت واہ واہ
شاد مانی تجھ کو ملتی ہے تڑپتا دیکھ کر
قتل قسطوں میں ہی کرنا تیری عادت واہ واہ
خاک کے ذرے سواری چاند پہ کرنے چلے
زندگی تجھ پہ تصدق تیری محنت واہ واہ
***
گرچہ ہم قوت افراد نہیں رکھتے ہیں
گوشۂ دل کبھی ناشاد نہیں رکھتے ہیں
اپنے احسان کے چرچے وہ بہت کرتے ہیں
خود پہ اوروں کے کرم یاد نہیں رکھتے ہیں
دل کی باتیں ہی بیاں کرتے ہیں ہم شعروں میں
قصہء شیریں و فرہاد نہیں رکھتے ہیں
***
کچھ تجھے میری محبت کا گماں ہے کہ نہیں
سوز دل، سوز جگر، سوز نہاں ہے کہ نہیں
امن کے کھوکھلے دعوے تو بہت ہیں لیکن
اب بھی غارت کا سماں شور و فغاں ہے کہ نہیں
کب تلک محو غم دوش رہوں میں نازاں
کوئی بتلائے مرے منہ میں زباں ہے کہ نہیں
***
ہمیں ہے روز قیامت کا سامنا لیکن
زمانہ پھر بھی قیامت کے انتظار میں ہے
ٹھکانہ کس کا کہاں ہے عمل پہ ہے موقوف
یہ مشت خاک تو نہ نور میں نہ نار میں ہے
آدمی کو چاہئے اہل نظر بن کر رہے
وہ بھی کیا انساں جو بیٹھا بے خبر منزل میں ہے
***
جھوٹ، رشوت، بغض، نفرت کی پذیرائی ہوئی
اپنی حق گوئی رہی کب قابل انعام بھی
جس طرف دیکھئے بھیڑ تو ہے مگر
آدمی ہے کہاں ہے ہمیں دیکھنا
پھرتے ہیں ظالم یہاں قانون ہاتھوں میں لئے
کیا یہی ہے امن کا پیمانہ تیرے شہر میں
تو رہی خاموش نازاں تجھ کو کرسی تھی عزیز
آدمی بکتے رہے روزانہ تیرے شہر میں
دست بحر سخا نہیں ہوتا
ذہن کیوں پارسا نہیں ہوتا
خون بہتا ہے لوگ بکتے ہیں
تیری دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ہے آئنہ سماج کا نازاں تری غزل
ایسی غزل کہ دل میں اترتی چلی گئی