Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rana Awais
  4. Top Ten

Top Ten

ٹاپ ٹین

ویسے تو عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ جب انہوں نے اپنی حکومتی کارکردگی کی تعریف نہ کی ہو۔ جب کبھی بھی حکومت کو تنقید کا سامنا ہوتا ہے یا اپنی بدترین کارکردگی کی وجہ سے زیرِعتاب ہوتی ہے تو وزیر اعظم ایک ہی سانس میں جہاں ٹیم اچھی نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں، وہیں وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کی تعریف کر کے بد ترین کارکردگی کا خمیازہ بھگتی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مذاق گزشتہ دنوں، وزیراعظم کی جانب سے اپنی حکومت میں نام نہاد اچھی کارکردگی دکھانے پر ٹاپ ٹین وزارتوں میں تعریفی اسناد تقسیم کر کے کیا گیا۔

72سالہ تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا، کہ جب ایک حکومت اپنی بدترین کارکردگی کے باوجود بھی اپنے وزارء کو ان کی کارکردگی پر تعریفی اسناد سے نوازتی نظرآئی۔ دلچسپ امر یہ ہےکہ ان ٹاپ ٹین میں شامل بیشتر وزارء حکومت میں آنے سے لے کر اب تک کئی وزارتوں میں اپنی کارکردگی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ جس بنا پر انہیں ان وزارتوں سے ہٹا کر دوسری وزارت سونپی گئی۔ ان میں قابلِ ذکر نام موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید، جو کہ اس سے پہلے ریلوے کی وزارت پر براجمان رہ چکے جبکہ دوسرا نام موجودہ وزیر برائے منصوبہ بند ی و ترقی اسد عمر ہیں جو کہ اس سے پہلے وزیر خزانہ کے طور پرکام کرتے ہوئے اس قدر کارکردگی دکھا چکے ہیں کہ اپنی تعیناتی کے چند ماہ بعد ہی انہیں وزیر ِخزانہ کے منصب سے ہٹانا پڑا۔

حکومت کی جانب سے کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹاپ 23وزارتوں کا اعلان کیا گیا ہے مگر ان 23وزارتوں میں ٹاپ ٹین میں شامل ہونے والی وزارتوں کے وزارء کو تعریفی اسناد سے نوازا گیا ہے۔ کپتان کے ان ٹاپ ٹین میں آنے والے وزارء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے توپہلے نمبر پر براجمان وزیر ِمواصلات مراد سعید ہیں، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ وہی موصوف ہیں کہ جن کے اس بیان " کہ عمران خان کے اقتدارمیں آتے ہی باہر پڑے اربوں ڈالر واپس لا کر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے جائیں گے اور باقی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے "کی وجہ سے آج تک حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خود وہ تو وزیرِ مواصلات کے طور پرملک بھر میں مواصلا ت کے بنیادی ذرائع فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مگر گزشتہ حکومت کے شروع کیے پروجیکٹس جن میں موٹر ویز اور دیگر شاہرائیں شامل ہیں، پر اپنے نام کی تختیاں لگا نے اور اسمبلی کے فلو ر پر مخالفین پر تنقیداور کیچڑ اُچھالنے کی بنیادپرٹاپ ٹین کی لسٹ میں پہلے نمبر کے حق دار ٹھہرے۔ اس کے علاوہ مخالفین کی جانب سے بیان کردہ کارکردگی بھی شاید ان کے نمبر ون بننے میں شامل ہو، جس کا ذکر یہاں کرنا مناسب نہیں۔

دوسرے نمبر پر براجمان اسد عمر جو کہ بطور وزیرِمنصوبہ بندی و ترقی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے ہیڈ کے طور پر کورونا جیسی قدرتی آفات میں اپنی گومگو پالیسوں، جس میں کبھی مکمل لاک ڈاؤن تو کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن کی مبہم پالیسوں کی وجہ سے شاید نمبر 2کے حق دار ٹھہرے جبکہ اس سے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر کارکردگی کے جو جھنڈے یہ گاڑ چکے، وہ تو سب جانتے ہی ہیں۔ یہ وہی اسد عمر ہیں کہ جن کو عمران خان اور پی ٹی آئی نے شروع سے ہی اپنی معاشی ٹیم کے ہیڈ کے طور پر پیش کیا تھا اور یہ باور کروایا تھا کہ ان کے حکومت میں آتے ہی اسد عمر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر، ملک کی ڈوبتی معیشت کو دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا کر دیں گے۔

تیسرے نمبر پر وزیر برائے پورٹی ایلیویشن اینڈ سوشل سیفٹی ڈویژن ڈاکٹر ثانیہ نشتر ہیں، جو کہ حکومت کے احساس پرو گرام کی ہیڈ ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شروع کردہ "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام "کو متنازعہ بنا کرجس خوبصورتی سے اسے تبدیل کر کے احساس پروگرام میں تبدیل کیا گیا اور اس پر پی ٹی آئی حکومت کی تختی آویزاں کی گئی، شاید اسی بنا پر انہیں ٹاپ ٹین میں تیسرے نمبر پر شمار کیا گیا۔ چوتھے نمبر پر وزیرِ تعلیم شفقت محمود ہیں، ان کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو کورونا کے پیشِ نظر ان کی پالیسی بھی اسد عمر کی طرح ابہام کا شکار نظر آئی۔ تعلیمی اداروں کی بندش ہو یا پھر طالب علموں کو پاس کرنے کی پالیسی، سبھی نے عوام کو تذبذب کا شکار کیے رکھا۔

نتیجتاًملک بھر میں طلباء نہ صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے محروم رہے، وہیں تمام طلباء کے پاس ہونے کی وجہ سے ہونہار پوزیشن ہولڈر طلباء کے ساتھ رزلٹ میں ناانصافی برتی گئی۔ ایسی ہی صورتحال کورونا کیسز میں کمی کے بعد تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے اور ان میں ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے میں پیش آئی، جہاں بغیر کسی تیار ی اور حکمت عملی کے تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا اور پھر کیسز میں اضافہ دیکھتے ہوئے انہیں دوبارہ بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نام نہاد(اچھی) کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے، وزیر تعلیم شفقت محمود ٹاپ ٹین وازرتوں میں چوتھے نمبر پر تعریفی سند وصول کرنے کے حق دار ٹھہرے۔

ٹاپ ٹین میں پانچویں نمبر پر وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری آئیں۔ ان کی بطور وزیر انسانی حقوق کار کردگی جانچنے کے لیے صرف یہ ہی دیکھنا کافی ہو گا کہ ان کے دورِ حکومت میں اب تک کتنے لاپتہ افراد بازیاب کروائے گئے؟ جہاں تک میری معلومات ہیں لاپتہ ہوئے افراد بازیاب تو درکنار، ان کے ورثاء کی داد رسی تک نہ کی گئی۔ صرف ساڑھے تین سالوں میں مزید درجنوں افراد لاپتہ ہوئے۔ کئی نامورصحافی پر قاتلانہ حملے اور تشدد کیا گیا۔ مگر آج تک کسی ایک واقعہ کے ملزم کو سزا تو دور، پکڑا نہیں جا سکا۔ ملک میں آزادی اظہار رائے کس قدر نافذالعمل ہے، اس کا اندازہ میڈیا پر عائد پابندیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

چھٹے نمبر پر وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار ہیں، ویسے تو ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ موصوف 2018کے عام انتخابات سے چند ماہ پہلے جنوبی پنجاب سے اپنے پورے گروپ کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور ان کی شمولیت اس بناء پر ہوئی تھی، جب انہیں عمران خان کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ حکومت میں آتے ہی پہلے 100دنوں میں جنوبی پنجاب کو باقاعدہ صوبہ بنا دیا جائے گا۔ اور پھر سبھی جانتے ہیں کہ خان صاحب کے باقی دعوؤں کی طرح یہ دعویٰ بھی ہوا میں اُڑ گیا۔

اس حکومت کی جانب سے چینی کے بحران پر کی جانے والی انکوائری میں بھی خسرو بختیار اور ان کے بھائی کو نامزد کیا گیا اور بحران پیدا کرنے اور ناجائز منافع خوری کا ملزم ٹھہرایا گیا۔ باقی اگر ان کی وزارت کی کارکردگی کی بات کی جائے تو صنعت کے میدان میں ملک کے زوال کو ملاحظہ کر لیں۔ جہاں صنعتی شعبہ سے جڑے لوگ انڈسٹری کی زبوحالی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، وہیں لاکھوں مزدور جو اس شعبہ سے منسلک تھے بے روزگار ہو چکے اور دو وقت کی روٹی بھی اس مزدور طبقہ کے لیے مشکل بنا دی گئی ہے۔

ساتویں نمبر پر امریکہ سے امپورٹ کیے گئے نیشنل سیکورٹی کے مشیر معید یوسف ہیں، ان کی کارکردگی صرف اسی سے واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں پہلے ہی دنیا پاکستان کی دہشتگردی کے حوالے سے قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری تھی، وہیں افغان جنگ کے اختتام پر حکومت کی جانب سے بجائے جانے والے فتح کے نکارے پاکستان کو دنیا بھر کی نظروں میں مزید مشکوک بنا گئے۔ اب حالات یہ ہیں کہ امریکی صدر بائیڈن تو پہلے ہی ہمارے وزیر اعظم کا فون نہیں اُٹھاتے تھے، اب افغان طالبان جو کہ اشرف غنی کے فرار کے بعد سے حکومت میں ہیں وہ بھی پاکستان کی سننے کو تیار نہیں۔

آٹھویں نمبر پروزیرِ تجارت رزاق داؤد ہیں جو کہ اس سے پہلے وزیر اعظم کی معاشی ٹیم میں نمایا ں تھے۔ ان کی کارکردگی یہ ہے کہ پہلے جو اشیاء پیدا کرنے میں پاکستان خود کفیل ہوا کرتا تھا، اب وہ اشیاء بھی ہم باہر سے منگواکر ملکی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ ایکسپورٹ کو بڑھانے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود بھی ملک کی انڈسٹری تباہ حالی کا شکار ہے۔ ساڑھے تین سالوں میں کوئی واضح روڈ میپ دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ نویں نمبر پر وزیر داخلہ شیخ رشید جو کہ اس سے پہلے ریلوے کا بھٹہ بیٹھا چکے، موجود ہیں۔

مخالفین پر تنقید اور مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے موصوف، ملک کی اندورنی سیکورٹی کے حوالے سے بالکل لاعلم نظر آتے ہیں۔ ملک میں سیکورٹی کس معیار کی ہے؟ اس کا انداز آپ اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی شرح دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ دسویں نمبر پر وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی سید فخر امام ہیں ملک میں کسانوں کی زبو حالی، کھاد کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ کے باوجود کسان جو کہ ایک بوری کھاد کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، ان کی حالت زار اور زراعت کے حوالے سے حکومت کی عدم توجہی نے وزیر صاحب کو دسویں نمبر پر براجمان کیا۔

ان تما م ٹاپ ٹین میں آنے والی وزارتوں کی کارکردگی کے مختصر جائزے کے بعد، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم نے یہ تعریفی اسناد بانٹ کر اپنی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے اور عوام کی نظروں میں اپنی بری کارکردگی کو اچھا دکھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے، بھونڈا مذاق کیا ہے۔ البتہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ سرٹیفیکیٹ بہترین کارکردگی پر نہیں بلکہ بدترین کارکردگی پر دیئے گئے تو شاید عوام اسے آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لے۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat