Social Media Ik Gorakh Dhanda
سوشل میڈیا اِک گورکھ دھندہ
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک پاکستان میں سیاست ہمیشہ ہی موضوع بحث رہی ہے۔ پولرائزیشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ رواداری اور باہمی احترام برائے نام ہی رہ چکا ہے، مگر اس بڑھتی عدم برداشت کی وجہ معلوم کرتے اگر حقائق اور تاریخ کو ٹٹولا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ملک پاکستان کی سیاست ملک بننے سے ہی پولرائزیشن کا شکار رہی ہے، ہر دور کے سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر غداری، کرپٹ اور جھوٹے ہونے کا ٹیگ لگا کر خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
مگر گزشتہ 20، 22 سالہ سیاست ہماری ماضی کی سیاسی تاریخ سے ذرا مختلف ہے، مختلف کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہماری سیاست اور سیاسی قیادت نے پولرائزیشن کو ختم کرتے ہوئے سیاست میں رواداری اور باہمی احترام قائم کرنا شروع کر دیا ہے، البتہ آج کی پاکستانی سیاست میں تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے والی جماعت تحریک انصاف سے پہلے دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر سیاست میں رواداری لانے کی ضرور کوشش کی، دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت اس کی مثال ہیں۔
جیسے دنیا بھر میں سائنسی انقلاب نے تمام تر شعبہ جات میں انقلاب برپا کیا ویسے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع بھی ترقی کرتے گئے، اور اس سائنسی انقلاب نے دنیا بھر میں روزمرہ زندگی سے لے کر سیاست تک کو تبدیل کر کے رکھ دیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرنک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا ایک ایسا انقلاب تھا کہ جس کی بدولت خبر تک رسائی مکمل طور پر آسان ہو گئی۔
پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا پر خبر سے پہلے سوشل میڈیا پر اس کی باز گشت سنائی دینے لگی، مگر جہاں بے شمار فوائد تھے وہیں اس کا غلط استعمال بھی ایک مسئلہ بنتا گیا، جس کی روک تھام کے لیے متعدد قوانین بنائے گئے مگر وہ قوانین صرف برائے نام ہی رہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری سیاسی رواداری اور باہمی احترام کی اقدار منوں مٹی تلے دفن ہوتی گئی۔
بات اگر سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی پولرائزیشن کی ہو اور عمران خان کا ذکر نہ ہو تو یہ عمران خان کے ساتھ زیادتی ہو گی، کیونکہ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں میں سے صرف عمران خان اور ان کی جماعت نے سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ اپنے بیانیے کے لیے استعمال کیا، اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ 20، 22 سالوں میں جہاں دنیا بھر میں سائنسی انقلاب برپا تھا تو دوسری طرف پاکستانی سیاست میں تیسری قوت پی ٹی آئی اور عمران خان کی صورت میں عوام میں متعارف کروائی جا رہی تھی تو غلط نہ ہو گا۔
اب پی ٹی آئی کو عوامی مقبولیت کیسے ملی یا دلوائی گئی یہ تقریباً سبھی جانتے ہیں، اسی لیے بیان کرنے کی ضرورت نہیں، عمران خان اور ان کی جماعت نے دور جدید کے تمام تر ذرائع خصوصاً سوشل میڈیا کو اپنی ترویج کے لیے کھل کر استعمال کیا، بلاشبہ ان کی سیاسی مقبولیت کا مین ذریعہ سوشل میڈیا تھا۔ چونکہ ملک کے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا تھا تو عمران خان اور ان کی جماعت نے سوشل میڈیا ہی کے ذریعے اپنے بیانیے کو نوجوان نسل تک پہنچایا
اور انہیں ایک غیر حقیقی خواب (تبدیلی) کے نام پر دیکھانا شروع کیے اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف نفرت انگیر بیانیے کو ترویج دی اور پھر حکومت میں آ کر حقائق کے برعکس بے بنیاد مقدمات بنا کر انہیں انتقام کا نشانہ بھی بنایا، تاریخ اور اپنی اقدار سے لا علم نوجوان نسل جوق در جوق عمران خان کی اس نفرت انگیز مہم کا حصہ بنتی گئی اور آج حالات اس نہج پر ہیں کہ سیاست دان تو ایک طرف کسی عام شہری کی بھی عزت سوشل میڈیا کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
غیر اخلاقی ویڈیوز، آڈیوز اور مخالفین کو زچ کرنے کے تمام تر منصوبے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھائے جاتے ہیں، ارسلان بیٹے کے ذریعے مخالفین کو غداری سے لنک کرنا ہو یا پھر اپنے خلاف حقائق بیان کرتے کسی صحافی کو زد و کوب کرنا ہو یا پھر چاہے ملک کے افواج کے خلاف اپنی کرائے کی سوشل میڈیا برگیڈ کے ذریعے ٹرینڈز چلوانے ہوں، ان تمام تر کاروائیوں میں عمران خان اور ان کی جماعت صف اول میں کھڑی نظر آئی۔
اس سب کے دوران شاید عمران خان یہ بھول گئے کہ جیسے وہ اپنے مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کو استعمال کر رہے ہیں تو دیگر جماعتیں بھی یہ ہی سب کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔ بلاشبہ عمران خان نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسائے، اپنے اخلاق اور کردار کی خامیوں کو بھول کر اقتدار تک پہنچنے کے لیے تمام تر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے والے عمران خان کا بھی سامنا آج کل ان ہی حربوں سے ہے جو وہ مخالفین کو لتاڑنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
میں ان آڈیوز کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے عمران خان کے سازشی بیانیہ کی پول کھول کر رکھ دی ہے، اور آج وہی عمران خان جو مخالفین کی ویڈیوز اور آڈیوز کو اصل ثابت کرنے پر تلے رہتے تھے آج اپنی آڈیوز کو جھوٹ اور مخالفین کی سازش قرار دیتے ہیں، اور وہی سوشل میڈیا جسے وہ اپنی مقبولیت کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیتے رہے اسی سوشل میڈیا پر ان کی آڈیوز جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہیں اور ان کے سازشی بیانیے کا قلع قمع کرتی نظر آ رہی ہیں۔
یاد رہے یہ وہی عمران خان ہے جو اقتدار میں ہوتے ہوئے ایجنسیوں کا وزیراعظم کی کالز ریکارڈ کرنے کا دفاع کرتے تھے، اور اسے ملک کی بقاء کا مسئلہ قرار دیتے تھے، مگر چونکہ اب اپنا پھینکا پینترہ ہی خود پر الٹ ہو چکا ہے اور خان صاحب کو اپنے کردار اور اخلاق کا بخوبی اندازہ ہے تو اپنے بیانیہ کو بچانے کے لیے نئی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ویڈیوز کے آنے سے پہلے ہی انہیں اپنے خلاف سازش قرار دینے لگے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے پہلے اپنی سوشل میڈیا برگیڈ کے ذریعے خود لگائے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو متنازع کرنے کی ناکام کوشش کی۔
عمران خان یقیناََ ایک ایسی نوجوان نسل تیار کر چکے ہیں کہ جسے تاریخ یا اقدار کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ وہ شخصیت پرستی میں اس حد تک گرفتار ہو چکے ہیں کہ انہیں حقیقت کی طرف واپس لانا اور انہیں حقائق سے آشنا کرنا مشکل ترین کام ہے، پھر چاہے ان کے سامنے درجنوں ویڈیوز اور آڈیوز رکھ دی جائیں مگر وہ پھر بھی خود کو عمران خان کی طرف سے شعور یافتہ کہہ کر حقیقت سے لاعلم رہنا پسند کریں گے۔
اور سب سے خطرناک بات کہ یہ وہی نوجوان نسل ہے کہ جنہوں نے مستقبل میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے، تو پھر جس رفتار سے ہم اخلاقی پستی میں گزشتہ 74 سالوں میں پہنچے ہیں تو اس سے آدھے عرصے میں ہم خدانخواستہ مکمل طور پر اپنے اخلاقی اقدار کو بھول کر اس ملک خداداد کی بقاء کے ضامن ہونے کی بجائے اس ملک کی تباہی کا مؤجب بن جائیں گے، چاہے آپ کسی بھی جماعت کے چاہنے والے ہوں اپنے اخلاق اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
سوشل میڈیا، آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال اور آڈیوز، ویڈیوز کے اس گندے کھیل کو جب تک لگام نہیں ڈالی جائے گی تب تک ہم اسی پستی کا شکار رہیں گے کہ جس کا شکار آج ملک کی نوجوان نسل عمران خان اور ان کی جماعت کے باعث ہو چکی ہے، جس دن ہم شخصیت پرستی سے ہٹ کر نظریات اور حقائق کی بناء پر ملک کے حکمرانوں اور لیڈران کو پرکھنہ شروع کریں گے تو یقیناََ اس ملک کے مسائل کا حل نکلنا شروع ہو گا، اور اس ملک کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں تصور ہو گا۔