Sadarti Nizam
صدارتی نظام
ملک میں صدراتی نظام کے نفاذ کی باتیں نئی نہیں۔ آخر اس نظام میں ایسا کیا ہے کہ ہرکچھ عرصے بعد اس نظام کے نفاذ کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ملک پاکستان میں صدارتی نظام ایوب خان سے لے کر مشرف تک چلایا گیا۔ جمہوری نظام کی دو اقسام ہوتی ہیں۔"صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام"یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف نظام ہیں۔ صدارتی نظام میں عوام اپنے ووٹ سے براہ راست صدر کا انتخاب کرتی ہے اور پھر منتخب صدر خود ہی وفاقی کابینہ کی تشکیل کرتا ہے۔ جب کہ پارلیمانی نظام میں اس کے برعکس عوام اپنے علاقہ سے ایم این اے کو ووٹ سے منتخب کر کے پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں اور پھر وہ منتخب نمائندے اپنے ووٹ سے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔
بات اگرمدت کی کی جائے تو صدارتی نظام میں صدر کی مدت متعین ہوتی ہے اور اس مدت کے دوران اسے کوئی منصب سے ہٹا نہیں سکتا جبکہ پارلیمانی نظام میں ووٹ آف نو سے صدر کو منصب سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ صدارتی نظام میں صدر ریاست کا ہیڈ ہوتا ہے جبکہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کابینہ کا ہیڈ ہوتا ہے۔ جبکہ صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ جب سے پی ٹی آئی حکومت میں آئی ہے، تب سے صدارتی نظام کے نفاذ کی باتیں کچھ زیا دہ ہی گردش کرنے لگی ہیں۔
میرے خیال سے صدارتی نظام بارے افواہیں تب گردش کرتی ہیں، جب کبھی موجودہ حکومت کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے صدارتی نظام کی افادیت بیان کی جانے لگتی ہے۔ پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کو ملک کے لیے آئیڈیل قرار دیتے ہوئے لمبے چوڑے دلائل دیئے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدارتی نظام کیا ان کرداروں سے بالاتر ہے؟ جو کہ پس پردہ رہ کر حکومت کے آنے اور جانے کا تعین کرتے ہیں۔ جہاں تک پارلیمانی نظام کی بات ہے جو کہ اس وقت ملک میں نافذالعمل ہے۔
تاریخ بتا تی ہے کہ ملک کا پارلیمانی نظام کبھی بھی سپریم نہیں رہا۔ ہمیشہ ہی منتخب حکومتوں کو پل بھر میں گرا اور بنا دیا جاتا ہے۔ ملک کے پارلیمانی نظام میں ہمیشہ سے ہی مداخلت اور ذاتی پسند نا پسند کا دور دورا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ آئین نےاس نظام کو یہ طاقت بخشا ہے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور وہ منشور جس پر عوام بھروسہ کر کے اسے اقتدار کے ایوانوں تک لاتی ہے اسے پورا کرے۔
چونکہ ہمارا پارلیمانی نظام سپریم نہیں تو ہمیشہ ہی اندرونی و بیرونی مداخلت سے اس نظام کو ملک میں پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ جب کبھی بھی ملک میں پارلیمانی نظام اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگتا ہے توکبھی ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے حکومتوں کو گھر بھیج دیا گیا۔ کبھی طاقت ور حلقوں کی جانب سے لیڈر مینوفیچرنگ فیکٹری میں تیار کردہ نئے چہرے کے ذریعے منتخب حکومت کو کمزور کیا گیا۔ صدارتی نظام کے حق میں دلائل دینے والے اس کی افادیت تو بیان کرتے ہیں مگریہ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ یہ نظام کس قدر آزاد ہو گا۔
ملک کے نظام میں موجود نقائص کے ساتھ اگر ملک میں صدارتی نظام کو نافذ کر بھی دیا جائے تو جیسے پارلیمانی نظام ہائی جیک کر لیا جاتا ہے اور اپنے من چاہے فیصلے اور چہرے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ صدارتی نظام کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ اور وہ سب جو اس وقت صدارتی نظام کے فوائد بیان کرتے ہیں پھر سے پارلیمانی نظام کی طرف کوچ کرجانے کو ملک کے لیے فائدہ مند قرار دیں گے۔ ملک کے کمزور پارلیمانی نظام کے محرکات کو سمجھا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ بذات خود نظام کمزور نہیں بلکہ ہمیشہ نظام کو کمزور کرنے والے عوامل نظام میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ جب تک نظام میں موجود کمزوریوں کا سدباب نہیں کیا جائے گا نظام کوئی بھی نافذالعمل ہو ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔