Qaum Ya Hajoom
قوم یا ہجوم
کسی بھی قوم کے تشخص اور انسانی قدروں کو ماپنے کے لیے اس میں موجود انسانیت اوراخلاقی اقدارکو بطور مجموعی دیکھا جاتا ہے، ہمارا ایک ایک فعل ہماری اخلاقی اقدار کا پتہ دیتی ہے، بحیثیت قوم ہمار ی اخلاقی اور قومی اقدار کس قدر گراوٹ کا شکا ر ہے۔ اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ہونے والے سانحہ مری سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں ایک جانب اس دلخراش واقعے نے ہماری اخلاقی اقدار کی گرواٹ کوآشکار کیا وہیں ہمارے نظام اور حکومتی کارکردگی کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔
اس واقعہ میں ہماری اقدار اور اخلاقی پستی پر نظر دوڑانے سے پہلے ملک کے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بے حس حکمرانوں کی ذہنی پستی کوملاحظہ کیجئے کہ ایک جانب تو حکومت ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں کرتی ہے تو دوسری جانب جب کبھی بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو بجائے اس کے کہ سانحہ میں ملوث اور بد انتظامی کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے اُلٹا سانحہ کے متاثرین اور سانحہ میں جاں بحق ہو جانے والے افراد کو سانحہ کا ذمہ دار قرار دے کر اپنی نا اہلی کا داغ صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس قسم کی روش ہی حکومت کی جانب سے سانحہ مری پر دیکھنے کو ملی، سانحہ سے قبل بجائے مری اور دیگر سیاحتی مقامات پر انتظامات کو بہتر کرتی حکومتی وزارء اور مشیروں کی فوج ٹوئیٹر پر بیٹھ کر قوم کو مبارکباد دینے میں مصروف تھی کہ گزشتہ 24گھنٹوں میں مری میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں اور اس کو ملک میں مہنگائی اور غربت کے نا ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہے۔
مری جیسے شہرمیں جہاں ایک اندازے کے مطابق صرف 4ہزار گاڑیوں کے پارکنگ کی گنجائش ہے وہاں بغیر کسی انتظامات کے ایک لاکھ گاڑیوں کا داخل ہو جانا ہی کسی ممکنہ سانحہ کے پیش آنے کا پتہ دیتا ہے، مگراس سب کے باوجود حکومت خواب غفلت کا شکار رہی، مزید ستم ظریفی کہ محکمہ موسمیات کی مری کے موسم کے حوالے دی جانے والی متعدد وارننگ پر بھی حکومت نے کان نہ دھرے جس کا نتیجہ 23سیاحوں کی نا گہانی وفات کی صور ت میں سامنے آیا جو شدید موسمی حالات میں بے یارومدد گار موسم کی سختیاں جھیلتے رہے اور حکومتی مدد کے انتظارمیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دینے والے وزیر اعظم جو خود اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کسی بھی سانحہ کے بعد وزیر اعظم اور متعلقہ وزیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر تے تھے سانحہ کا موجب بننے والے وزارء اور انتظامیہ کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے، سیاحوں کو مورودِ الزام ٹھہرا کر، انہیں موسم چیک کر کے مری جانے اور انتظامیہ کی ممکنہ طوفان کے حوالے سے تیار ی نہ ہونے کا بتا کر مرحومین کے ورثا کے غم پر مزید نمک پاشی کرتے رہے، اور کچھ نہ سہی اگر صرف بر وقت مری میں موجود درجنوں سرکاری رہائش گاہیں اور فوج کے ریسٹ ہاؤس بھی طوفان میں پھنسے سیاحوں کے لیے کھول دیئے جاتے تو 23قیمتی انسانی جانوں کے ضیا ع کو روکا جا سکتا تھا۔
مگر حسب معمول حکومت اور متعلقہ انتظامیہ خواب غفلت سے تبھی جاگی جب موسم کی سختیا ں برداشت کرتے ہوئے 23سیاح جان کی بازی ہار گئے، ہماری بدقسمتی کہ دنیا بھر میں ریسکیو کا مطلب انسانی جانوں کو خطرات سے بچانا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ریسکیو کا مطلب سانحہ کے بعد لاشوں کو اُٹھا نا ہوتا ہے، اس سارے واقعہ میں جہاں حکومت اورانتظامیہ کا رویہ قابل مذمت رہا وہی مری ہوٹل مالکان اور دیگر لوگ بھی اپنی لالچ میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ موسم کی سختیا ں جھیلتے سیاحوں اور ان کی فیملی کی بجائے بلا معاوضہ یا کم معاوضے میں مدد کرنے کے ہوٹل کے ریٹ میں ہوش روبہ اضافہ کر دیا۔
ایک کمرہ جس کا عام دنوں میں کرایہ 5ہزار تھا اس کا کرایہ سانحہ کے روز 50، 50ہزار مانگا گیا، جبکہ دوسری جانب کھانے پینے کا سامان اور پانی تک کی قیمتوں میں ہزار گنا اضافہ دیکھنے میں آیا، برف میں پھنسی گاڑیوں کو نکالنے اور بند ہوجانے والی گاڑیوں کو دھکا لگانے کا بھی 5، 5ہزار معاوضہ طلب کیاگیا، جب کہ انسانیت کے ناطے کسی بھی غیر معمولی حالات میں زندہ قومیں اپنے نفع نقصان کو پس پشت ڈال کر متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
اس سب کے باوجود بھی کچھ انسانیت کا درد دل رکھنے والے لوگ اپنے محدود وسائل کے باوجود متاثرین کی مدد میں مصروف رہے، مگراس سانحے کے بعد اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو معذرت کے ساتھ ہم ہجوم تو ہو سکتے ہیں مگر قوم نہیں!