Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rana Awais
  4. Insaf Tamasha

Insaf Tamasha

انصاف تماشہ

نظام انصاف کسی بھی معاشرے کے قیام کا بنیادی جز ہوا کرتا ہے، وہ معاشرہ کبھی اور کسی بھی صورت قائم نہیں رہ سکتا، جہاں انصاف کے دہرے میعار بنا رکھے ہوں، ہر شہری کے بنیادی حقوق میں امیر غریب کی تفریق کے بغیر بلا تعطل انصاف کی فراہمی اس کے بنیادی حقوق کا حصہ ہوتا ہے، بات اگر ملک پاکستان کی ہو تو جہاں ہمارے ملک میں دیگر مسائل آزادی سے اب تلک حل طلب ہیں وہی نظام انصاف کی خرابیاں بھی۔

جوں کی توں قائم و دائم ہیں، ملک میں واضح طور پر امیر غریب کے لیے الگ الگ قوانین رائج ہیں، امیر کے لیے انصاف کی من چاہی فراہمی اور غریب کے لیے سا لہا سال انصاف کے لیے دربرد پھیرنا معمول کی بات ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں دنیا ہم سے ہر حوالے سے آگے جا چکی ہے وہیں انصاف جیسی بنیادی چیز میں بھی ہم دنیا سے کئی برس پیچھے ہیں، جیسے دنیا ہم پر دیگر معاملات میں اعتماد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔

وہی ہمارے انصاف کے نظام پر بھی عدم اعتماد کرتی نظر آتی ہے، عالمی رینکنگ میں 140 میں سے 130 ویں نمبر پر کھڑا ہمارا نظام انصاف چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ہم بحثیت قوم کہاں کھڑے ہیں۔ وسائل کی کمی کا رونا ایک طرف مگر اگر نظام انصاف کو چلانے والے اداروں کی بات کر لی جائے تو جہاں بحثیت قوم ہم اپنی خرابیوں کی خود ایک وجہ ہیں وہی انصاف فراہم کرنے والے ادارے خود بھی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔

ذاتی پسند نا پسند، بغض و عناد سے بھرے فیصلے ہمارے نظام انصاف کو روز بہ روز پستی کی طرف لے جانے میں مصروف ہیں، عام عوام کے کیسز تو دور قومی نوعیت کے کیسز میں بھی ہماری عدلیہ کی جانبداری اور ان جانبدارانہ فیصلوں کی بدولت تباہی کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، بھٹو کا جوڈیشل قتل، ہر دور میں آمریت کو ویلکم، آمریت کے زیر سایہ پی سی او کے تحت حلف۔

منتخب وزار اعظم کو متنازع فیصلوں سے گھر بھیجنا اور ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر انصاف کے دہرے معیار قائم کرنا ہماری جوڈیشری کی وہ تعریف ہے۔ جس سے آج کوئی بھی حقائق سے آشنا شخص انکار نہیں کر سکتا۔ دور حاضر کی بات کر لی جائے تو سبھی کو معلوم ہے کہ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے کیسے عمران خان اور ان کی جماعت کو اقتدار پر براجمان کروانے کے لیے ملک کے پورے نظام کو ہائی جیک کیا گیا۔

منتخب وزیراعظم کے خلاف غیر معروف فیصلوں سے لے کر صادق و امین کے سرٹیفکیٹ دینے تک ہر عمل میں ہماری عدلیہ پوری طرح شامل رہی، مگر جب اپریل 2022 میں اس وقت کی اپوزیشن نے اداروں کی اس یقین دہانی پر کہ وہ آئندہ سے کسی بھی سیاسی معاملے میں نیوٹرل رہیں گے تحریک عدم اعتماد پیش کی اور نیازی اینڈ کمپنی کو اقتدار سے بے دخل کیا تو یہ امید پیدا ہوئی کہ ملکی نظام جو سالہاسال سے غیر آئینی۔

مداخلت کے زیر سایہ رہا ہے، اب مکمل آزادی سے اپنے نا صرف کام کر سکے گا، بلکہ مستقبل کا بھی تعین کرے گا، اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران خان کا خود ساختہ سازشی بیانیہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ کیسے انہوں نے اداروں کے سازشی بیانیہ کو ماننے سے انکار پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور خود کو اور اپنی جماعت کو بدترین کارکردگی کے باوجود فیس سیونگ فراہم کرنے کی کوشش کی۔

جہاں ایک طرف قومی اسمبلی میں آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے عمران خان کواقتدار سے بے دخل کیا گیا وہی پنجاب جہاں گزشتہ ساڑھے تین سال کی بدترین کارکردگی کے حامل نا اہل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی گھر بھیجنے کے لیے عدم اعتماد پیش کی گئی جو کہ ان کے استعفیٰ کے بعد ختم ہو گئی، اور حمزہ شہباز 197کے بھاری مارجن سے وزیر اعلیٰ پنجاب قرار پائے۔

اس سارے عمل کے دوران عدلیہ نے ایک بار پھر سے جانبدار دیکھائی دی، قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کیس کے فیصلے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی، مگر عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے گو کہ قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ مگر پنجاب میں جاری اقتدار کی کھینچا تانی میں عدلیہ نے اپنا مکمل جانبدارانہ رویہ جاری رکھا اور حمزہ شہباز کوووٹ دینے والے پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ مسترد۔

اور پارٹی ہیڈ کی درخواست پر انہیں ڈی سیٹ کرنے کا حکم صادر کیا، اور یہ ٹرینڈ سیٹ کیا کہ آئندہ پارٹی ہیڈ کی ہدایات اور پارٹی آئین کی خلاف ورزی پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا جائے گا۔ مگر ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی سیٹس پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعدگو کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی ق لیگ کی نمبر گیم بہتر تھی، مگر22 جولائی کو وزیر اعلیٰ کے الیکشن سے پہلے ق لیگ کے سربراہ۔

چوہدری شجاعت کی جانب سے اپنے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو بذریعہ خط یہ بات باور کروائی گئی کہ ق لیگ تحریک انصاف کی بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ کرے گی، اس کے باوجود ق لیگ کے ارکان نے تحریک انصاف کے امیدوار پرویزالہٰیٰ کو ووٹ دے کر نہ صرف پارٹی آئین کی خلاف ورزی کی بلکہ کورٹ کے اس فیصلے کی بھی نفی کی جو کہ منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرتے پارٹی ہیڈ کی ہدایات کو حتمی قرار دینے کے حوالے سے دیا گیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ قرار دے دیا، مگر اب کی بار جب پرویز الہٰی درخواست لیے سپریم کورٹ پہنچے تو وہی پی ٹی آئی جو رات کو عدالتوں کے کھولنے پر تنقید کیا کرتی تھی۔ ان کے لیے رات 12 بجے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کھولی گئی۔

اور رجسٹرار نے درخواست موصول کی اور کورٹ کی جانب سے اگلے ہی دن اسے سماعت کے لیے مقرر کیا، حسب سابق چیف جسٹس نے اپنا تین رکنی وہی بینچ جو کہ بیشتر کیسز میں فیصلے سنا چکا ہے۔ سماعت کے لیے مقرر کیا اور اپنے ہی دیئے فیصلے کی نفی کرتے ہوئے اب کی بار پارٹی ہیڈ کی بجائے پارلیمانی لیڈر کی رائے کو مقدم قرار دے کر ڈپٹی اسپیکر کے مسترد کیے دس ووٹ شمار کروا کر پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔

اس دوران حکومتی اتحاد کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات اور فل کورٹ بینچ کی تشکیل کے مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی جانبداری کا مظاہرہ کیا، ملک کے بیشتر بار کے سابق صدور اور قانونی ماہرین نے بھی اس حساس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل کو ضروری قرار دیا۔ مگر چیف جسٹس کسی کی بھی رائے کو خاطر میں لائے بغیر اپنا من چاہا فیصلہ صارد کر کے چلتے بنے۔

ملکی صورتحال، روز بروز بڑھتی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام میں جہاں ضروری تھا کہ ایک معتدل فیصلہ دے کر ملک میں جاری بحرانوں کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کی جائے وہاں سپریم کورٹ نے اپنے یکے با دیگے متنازعہ فیصلوں کی بدولت ملک کو مزید آگ میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر، من چاہے فیصلے اور بینچ جہاں ہمارے نظام انصاف کی قلعی کھولتے دیکھائی دیتے ہیں۔

وہیں عوام اور عوامی نمائندوں کی جانب سے نظام عدل پر عدم اعتماد کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، سپریم کورٹ فیصلہ دیتے یہ بھول گئے کہ جس نظام پر حکومت وقت برملا عدم اعتماد کرتی نظر آتی ہے۔ اسی نظام پر بیرونی دنیا جو پہلے ہی ہمارے نظام انصاف کو بدترین قرار دیتی ہے، کیسے یقین کر سکتی ہے، یقینا ان فیصلوں کے بعد عالمی رینکنگ کہ جس میں ہم 130ویں نمبر پر براجمان ہیں۔

اس میں مزید ترقی کرتے ہوئے نچلی سطح سے نمبر ون ہونے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ میں یہاں یہ باور کرواتا چلو کہ آج جس کورٹ نے اپنے فیصلے پر یو ٹرن لیتے ہوئے پارلیمانی لیڈر کی رائے کو حتمی قرار دیا تو شاید پی ٹی آئی کے جشن مناتے لوگ بھول گئے ہیں کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پار لیمانی لیڈر راجہ ریاض ہیں۔ اگر کل کو کسی بھی معاملے میں پارلیمانی لیڈر کی جانب سے ارکان کو عمران خان کی بجائے حکومت کا ساتھ دینے کا کہا گیا۔

تو اس صورت حال میں کیا کیا جائے گا، تو مجھے معلوم نہیں البتہ یہ معلوم ہے کہ اگر اس معاملے پر ایک بار پھر سپریم کورٹ جایا گیا تو ایک بار پھر معزز ججز کی طرف سے آئین کی نئی تشریح کی جائے گی اور اپنے لاڈلوں کو نوازنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی، مگر اس سب کے باوجود ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر بار آئین کو توڑ مڑوڑ کر نئی تشریح کرنا جہاں ہمارے نظام انصاف کے لیے خطرناک ہے۔

وہیں ملک کی سالمیت اور اسے کے وقار کو مجروع کرنے کے مترادف ہے۔ اداروں کے پاسمتعدد مواقع ایسے آئے کہ جہاں وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ملکی نظام اور آئین میں متعین اپنے کردار میں رہ کر اپنی ذمہ داری کو نبھا سکتے تھے۔ مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد جو منظر کھنچا وہ وہی پرانا منظر ہی تھا کہ جہاں نظام انصاف کے ساتھ کھلواڑ کرتے کردار پوری قوم کو منہ چڑا رہے ہیں۔

جب آئین کے پاسبان ادارے ہی آئین کی پامالی اور انصاف کو تماشہ بنانے کا سبب ہوں تو معاشرے میں فتنہ فساد اور بغاوت پنپنا ایک عام سی بات ہے۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar