Hawaon Ki Berukhi
ہواؤں کی بے رُخی
ملک بھر میں موسم شدید سرد ہے مگر بات اگر سیاسی ماحول کی کی جائے تو وہ اس وقت انتہائی گرم ہے، جہاں ایک طرف حکومت ساڑھے تین سالہ بدترین کارکردگی کے بھنور میں پھنستی چلی جار ہی ہےوہیں دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں ان ہاؤس تبدیلی اور لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے، بیشتر ضمنی انتخابات اور کے پی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے بعد حکومت اب بھی پر امید ہے کہ تما م تر معاشی اور سیاسی ناکامیوں کے باوجود وہ نہ صرف اپنی موجودہ مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، بلکہ آئندہ پانچ سال بھی اقتداران ہی کے حصے میں آئے گا۔ وہ آہنی ہاتھ جو ان کے سروں پر 2018کے انتخابات میں موجود تھا اب بھی ان ہی کے سروں پر ہےاور اس بات کا حکومتی اتحادی اور وزیر داخلہ شیخ رشید برملا اظہار بھی کر چکے۔
سب اچھا ہے کا دیکھاواکرتے حکومتی وزیر صبح سے شام تک حکومت کی نا نظر آنے والی کارکردگی اور پانچ سال پورے کرنے پر دلائل دینے میں مصروف ہیں، وہیں ملک بھر میں گردش کرتی ان ہاؤس تبدیلی اور حکومت کو گھر بھیجنے کی افواہوں اور سرگوشیوں کی بھی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی بوکھلاہٹ اور بیانات کا تضاد اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومت اب طاقت ور حلقوں کا اعتماد کھو چکی، ان کی بدترین کارکردگی جہاں ان کے لیے وبال جان بن چکی وہیں، ان کے لانے والوں کے لیے بھی گلے کی ہڈی ثابت ہو رہی ہے۔
ہواؤں کے رُخ چلتی حکومت بھی یہ جان چکی کہ اب ہوا کا وہ ٹھنڈا جھونکا جوپچھلے ساڑھے تین سالوں تک ان کی جانب رُخ کیے ہوئے تھا اب وہ ان کی مخالف سمت جاتا جا رہاہے۔ مہنگائی بیروزگاری اور معاشی بدحالی سے ستائے عوام تو حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہی ہیں۔ حکومت کے اپنے وزیر اور پارٹی عہدیدار ان کی کارکردگی کے پول اسمبلی کے فلور، میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھولتے نظر آرہے ہیں۔
ایک طرف پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالم خان ہیں جو گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پر اپنی ہی حکومت کو آئینہ دیکھاتے رہے اور اسمبلی کی پہلی تین لائنوں میں بیٹھے تما م وزارء کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ دوسری جانب احمد جواد جو گزشتہ بیس سالوں سے تحریک انصاف کے رہنما تھے اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز تھے، میڈیا پر عمران خان اور ان کی حکومت کو بدترین معاشی و ملکی حالات کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔
اپنے ہی لوگوں کی جانب سے آئینہ دیکھانے پر حکومت نے ان دونوں کے خلاف شوکاز نوٹسز جاری کر دیے، جس کے جواب میں احمد جواد نے 30سوالات پرمشتمل شوکاز نوٹس اپنے ہی پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کے نام لکھا کہ جس میں انہوں نے پچھلے 20سال میں پی ٹی آئی اور پارٹی چیئرمین عمران خان کی اپنی باتوں کے برخلاف چلنے پر وضاحت طلب کی گئی۔ معاشی میدان ہو یا مہنگائی کا جن، ترقیاتی پروجیکٹس ہوں یا سی پیک جیسا تاریخی منصوبہ حکومت بری طرح فیل ہو چکی۔
ایسا ہی کچھ حال خارجہ پالیسی کا بھی ہے کہ جہاں حکومت پچھلے ساڑھے تین سالوں میں کوئی خارجہ پالیسی عوام کو نہ دے پائی۔ یہ خارجہ پالیسی ہی کی ناکامی ہے کہ دنیا افغان وار اور دہشت گردی میں ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے سے انکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات کی سنگینی اور وقت کی نزاکت کا ادرک پی ٹی آئی کے سبھی ایم این ایز اور منتخب نمائندوں کو ہے اسی لیے پس پردہ اگلے الیکشن میں دوسری جماعتوں کی ٹکٹس کے حصول کے لے ہاتھ پیر مارنا شروع ہو چکے ہیں۔
ہر وقت گھبرانا نہیں کا ورد کرتی حکومت واضح طور پر اب گھبراء چکی ہے، وہ کردار جو پہلے بھی رات کی تاریکیوں میں کئی منتخب حکومتوں کو گھر بھیج چکے ہیں ان کے خلاف آہستہ آہستہ سرگرم ہو رہے ہیں۔ اس بارے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ کیسے عوام میں مقبول کئی جماعتوں کو تاریک راتوں میں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اب حکومت کا جانا ٹھہر چکا مگر یہ ابھی دیکھنا باقی ہے کہ ان سے روٹھ جانے والی ہواؤں کا رُخ اب کس جانب جاتا ہے۔
ہواؤں کے روٹھ جانے پر حکومت کے نام ایک شعر
اس بے رُخی کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ تم چپ چپ بیٹھے ہو آخر وجہ کیا ہے؟
ہوئی گر مجھ سے کوئی گستاخی تو بتا دو نا کہ میری سزا کیا ہے؟