Dohra Miyar
دوہرا معیار
ویسے تو پچھلے 74سالوں سے ہی ملک پاکستان میں صحافت کا شعبہ زیر اعتاب رہا ہے، تاریخ کے اوراق کو ٹٹولا جائے تو ایسے لاتعداد واقعات ملتے ہیں کہ جب صحافت اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی، کچھ عرصہ پہلے تک ہر خاص و عام کی رائے میں صحافت کے لیے آمریت کا دور سب سے تاریک ہوا کرتا تھا، جس میں کبھی ملک دشمن تو کبھی غداری کا ٹیگ لگا کر ملک کے نامور صحافتی اداروں اور اس سے منسلک صحافیوں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی تھیں۔
مگر اس روایت میں تب تبدیلی دیکھی گئی کہ جب 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی حکمران جماعت بن کر اقتدار کے ایوانوں میں آ بیٹھی، ویسے تو عمران خان اور ان کی جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے سب سے بڑے چیمپئن ہوا کرتے تھے، اور یہ وعدے کیا کرتے تھے کہ ان کے حکومت میں آنے کے بعد ملک بھر میں صحافت کے شعبے کو مکمل آزادی سے کام کرنے دیا جائے گا۔
مگر جیسے عمران خان اپنے دیگر کئی وعدوں سے یو ٹرن لے کر اپنے دعووں کے برعکس کام کرتے دیکھائی دیئے ویسے ہی صحافت کے شعبے میں بھی ذاتی پسند ناپسند کو خوب پروان چڑھایا، یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو میڈیا میں سب سے زیادہ کوریج دینے اور پرموٹ کرنے میں نامور صحافی حامد میر اور ان کے ادارے جنگ اور جیو کا بھرپور کردار تھا، یہ بات کئی بار عمران خان بھی تسلیم کر چکے۔
مگر وہی جنگ اور جیو جیسے عمران خان سب سے زیادہ انٹرویو اور سب سے معتبر ادارہ مانا کرتے تھے کو ایسی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جو شاید آج ملک کا ہر شہری جانتا ہو گا، ان ہی کے دور حکومت میں درجنوں ایسے صحافی جو صرف اس بنیاد پر کہ وہ مشکل سوالات اور حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہیں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
مگر آج جب ایک بار پھر عمران خان اور ان کی جماعت اپوزیشن میں ہے اور اپنے امریکی سازش کے بیانیے کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو اپنے اس ہوائی بیانئے کا پرچار کرنے والے صحافیوں کے روپ میں موجود وہ کالی بھیڑیں ہیں جو کہ برملا ریاستی اداروں کو سازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرانے کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں، یاد رہے کہ یہ وہی صحافی ہیں جو کہ مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانات پر ملک دشمن قرار دیا کرتے تھے، اور عمران خان کے مخالفین کو ریاست مخالف اور ملک دشمن قرار دے کر غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹا کرتے تھے۔
آج جب انہیں مقدمات کا سامنا ہے تو وہی عمران خان جو اپنے دور حکومت میں صحافت کا گلا گھونٹنے میں مصروف تھے، آج اپنے پسندیدہ بہروپیئے صحافیوں کے خلاف مقدمات کو ملک دشمنی اور زباں بندی قرار دے رہے ہیں، شاید عمران خان بھول گئے کہ ان ہی کے دور میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو سرعام گولی ماری گئی، شاید عمران خان بھول گئے کہ ان ہی کی ایماء پر نامور صحافی طلعت حسین کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا، شاید عمران خان بھول گئے کہ ان ہی کے دور میں مطیع اللہ جان کو دن کی روشنی میں اسلام آباد کی سڑکوں سے اغواء کرنے کی کوشش کی گئی۔
شاید عمران خان بھول گئے کہ صحافی اسد علی طور کو گھر میں گھس کر مارا گیا، شاید عمران خان بھول گئے کہ کیسے انہوں نے جنگ اور جیو کے مالک میر شکیل الرحمان کو برسوں پرانے کیس میں قید کیا، اور سب سے بڑھ کر حامد میر جو کبھی عمران خان کے سب سے پسندیدہ اینکر ہوا کرتے تھے انہیں ایک تقریر کی بنیاد پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، اور شاید عمران خان یہ بھی بھول گئے تھے کہ آزادی اظہار رائے کی سب سے بڑی چیمپیئن بننے والی ان ہی کی حکومت تھی جو پیکا آرڈینس جیسے کالے قوانین ملک میں نافذ کرنے پر بضد تھی۔
حکمران جماعت کوئی بھی ہو اس پر ہمیشہ صحافت پر قدغن لگانے کے الزامات لگتے رہتے ہیں مگر جیسے عمران خان اور ان کی جماعت واحد جماعت بن چکی کہ جس نے فقط اپنے اقتدار کے لیے ملک کے آئین کو پامال کیا ایسے ہی عمران خان اور ان کی جماعت صحافت اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے میں بھی پہلے نمبر پر رہی اور آج پھر سے خود کو جمہوریت اور آزادی صحافت کے چیمپئن ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ مانا کہ ملک میں صحافت کا شعبہ ہمیشہ ہی زیر اعتاب رہا ہے مگر جیسے تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ویسے ہی اگر ملک میں حکمرانوں اور آمروں نے صحافت کو زیر اعتاب رکھنے کی کوشش کی وہیں صحافتی شعبے میں موجود کالی بھیڑوں نے ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی روایت قائم کر کے اس شعبے کو مشکلات سے دو چار کیے رکھا۔
صحافی کا کام حقائق بیان کرنا ہوا کرتا ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں میں ذاتی پسند ناپسند کی بدولت اپنے تجزیئے تبصروں میں ان کی پروموشن اور انہیں ملک و قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنا، آزاد صحافت اور آزادی اظہار رائے اسی وقت ممکن ہے کہ جب صحافتی اداروں میں اپنے پسندیدہ لیڈر کو ہیرو اور مخالف کو ملک دشمن اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والی کالی بھیڑوں کا قلع قمع کیا جائے گا، کیونکہ سیاست ہو یا صحافت دوہرا معیار کہیں بھی اور کسی بھی صورت نہیں چلے گا۔