Adam Etemad
عدم اعتماد
آج کل جہاں موسم انگڑائی لیتے ہوئے سرد سے گرم ہوتا جا رہاہے وہیں ملک میں سیاسی گرما گرمی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت کے قیام سے ہی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو سلیکٹڈ اور ووٹ چور کے ناموں سے مخاطب کرتی آر ہی ہے مگر پچھلے کچھ عرصہ سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کو گھر بھیجنے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہوا۔ فروری اور پھر اب رواں ماہ تقریباً کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کسی اپوزیشن جماعت نے میل ملاقات نہ کی ہو۔
اپوزیشن جماعتوں کا اچانک سے ایک بار پھر اکٹھے ہو جانا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کے ناراض ارکان خصوصاََ ترین گروپ اور علیم خان اس کے علاوہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے پے در پے ملاقاتوں نے گھبرانا نہیں کا راگ الاپتی حکومت کو گھبرانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں سے اپوزیشن جماعتوں کو احتساب کے نام پر انتقامی مقدمات میں مصروف رکھ کر حکومت نے اپنے لیے میدان خالی کیے رکھا۔ بغیر کسی رکاوٹ اور طاقتور حلقوں کے آشرباد سے حکومت ہر جگہ اپنی من مانی کرتی نظر آتی رہی۔
یہی وجہ تھی کہ ساڑھے تین سالوں میں حکومت نے ایک بار بھی اپوزیشن کو کسی فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے دی جانی والی تجاویز پر کان دھرے۔ اس سارے عرصے میں زیادہ تر تو حکومت نے اپنی لگائی صدارتی آرڈیننس فیکٹری کا سہارا لیتے ہوئے قانون سازی کی لیکن اگر کسی معاملے میں پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظوری کی ضرورت پیش آئی تو اپنے لانے والوں کی مدد سے نمبر گیم کو اپنے حق میں تبدیل کروانے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ لیکن اب جب کہ اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کا یقین ہو چکا کہ ادارے نیوٹرل اور سیاست میں مداخلت نہیں کر رہے تو ان کی جانب سے حکومت کو آئینی طریقے، عدم اعتماد سے گھر بھیجنے کی تیاری جاری ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے جاری کوششوں پر پہلے پہل تو حکومت اس گما ن میں نظر آئی کہ پہلے کی طرح اب بھی مدد کرنے والے ان کی مدد کو آن پہنچیں گے اور وہ اس تحریک کو بھی کچل ڈالیں گے مگر ناراض اراکین اور اتحادیوں کی جانب سے آنکھیں دکھانے پر حکومت خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان جو کسی کے مرنے پر بھی نہیں جاتے وہ چوہدری شجاعت جو کہ کافی علیل تھے، انہیں ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ وہ وزیر اعظم عمران خان جو ہزارہ میں دھرنے پر بیٹھے افرادکویہ کہتے رہے کہ آپ مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے وہ بقول عمران خان دہشتگرد جماعت ایم کیو ایم کو ملنے کراچی ان کے مرکز بہادر آباد پہنچ گئے۔
جبکہ اسی دوران حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ اپوزیشن عدم اعتماد سرے سے پیش ہی نہیں کرے گی اور یہ سیاسی ہل چل محض پیالی میں طوفان کے برابر ہے۔ مگر تمام تر حکومتی دعوے اس وقت ہوا میں اُڑ گئے جب 8مارچ کو اپوزیشن نے باضابطہ عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں جمع کروا دی اور اپنی نمبر گیم پوری کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اپوزیشن جماعتیں جو اس سے پہلے ماضی قریب میں ایوان میں اپنی اکثریت کے باوجود اقلیت بننے کے خوف ناک مناظر دیکھ چکی ہے اس بار بھرپورحکمت عملی اور پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔
اسی تناظر میں حکومت سے ناراض اراکین سے معاملات طے ہوجانے پر انہیں عدم اعتماد کی ووٹنگ تک محفوظ رکھنے کے لیے سندھ ہاؤس میں قیام کروایا جا رہاہے۔ جب کہ اتحادی جماعتوں ق لیگ اور ایم کیو ایم سے سنجیدہ مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔ اس تمام صورتحال میں حکومت کی جانب سے جہاں ایک جانب اتحادی اور اپنے ناراض اراکین کو راضی کرنے میں دشواری کا سامنا ہے وہیں عمران خان کی جانب سے عوامی رابطہ مہم بھی جاری ہے، جس میں عمران خان کی تقاریر ان کے گھبرائے ہوئے ہونے کی نوید سنا رہیں ہیں۔
جہاں وہ اپنی تقریر میں ایک لمحہ ناراض اراکین کو واپس آنے کی درخواست کرتے ہیں تو دوسرے لمحے انہیں سوسائٹی میں بدنام ہونے اور ضمیر فروش ہونے کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ میڈیا کو کنٹرول اور اپنے زیرِ اعتاب رکھنے والی حکومت کو میڈیا میں بیٹھے ان کے پسندیدہ صحافیوں کی جانب سے بھی گھر جانے کی نوید سنائی جا چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت یو ٹیوب پر بیٹھے اپنے چمچوں کے ذریعے اپناتیار کردہ نیا منجن عوام میں مقبول کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت اس سارے عمل سے کس قدر خوف زدہ ہے؟ اس کا صرف اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئین میں درج ہے کہ عدم اعتمادکو ہر صورت 14دن میں ایوان میں پیش کیا جانا چاہیے جب کہ حکومت کی جانب سے ایوان کی تزئین و آرائش اور او آئی سی کے اجلاس کو بہانہ بنا کر لیٹ کیا جا رہا ہے۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ منحرف ارکان کو مخالفت میں ووٹ دینے پر تا حیات نا اہل کروانے کے لیے آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ جبکہ متعدد قانونی ماہرین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ فلور کراسنگ پر آئین میں منحرف ارکان ڈی سیٹ ہو سکتے ہیں، تا حیات نا اہل کیے جانے کے بارے میں آئین میں کوئی شق موجود نہیں۔
اب اگر اس سارے عمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو جو تصویر کشی مجھ نا چیز کے سامنے بنتی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اپنے لانے والوں کا اعتماد کھو چکی ہے۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ جیسے عمران خان اپنی ذاتی زندگی میں متنازع اور ناکام رہے ویسے ہی بطور وزیر اعظم بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے تکبرانہ انداز، متضاد بیانات، اپنی ہی کہی باتوں سے انحراف اورپے در پے ناکامیوں کا بوجھ اب عمران خان اور ان کی جماعت کو اپنے ہی کندھوں پر اُٹھا نا پڑے گا۔
بلند و بانگ وعدؤں اور دعوؤں کے بھنورمیں پھنسے عمران خان کی صورتحال اس بوکھلائے بچے جیسی ہی ہے کہ جیسے مسلسل نقل لگوا کر پاس کروایا جاتا رہا ہو، اور پھر اچانک اسے یہ کہا جائے کہ اب وہ اپنی ذہانت اور محنت سے پاس ہوا۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ ہو مگر ملک میں زمیں بوس ہوتی معیشت، روز بروز بڑھتی مہنگائی اوربے روزگاری سے تنگ عوام تو کب سے اس حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے جس کی واضح نشانی کے طور پر خیبر پختونخواہ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ اقتدار سے چمٹے رہنا عمران خان کی ضد تو ہو سکتاہے مگر عوامی رائے نہیں تو یہ غلط نہ ہو گا۔