Adal Tareekh Ke Jharokon Se
عدل تاریخ کے جھروکوں سے
پچھلے 75 سالوں سے اگر ملک کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو تقریباً تمام ہی ادار ے اپنی آئینی حدود و قیود سے تجاوز کرتے نظر آتے ہیں، یعنی آزادی سے اب تلک کوئی بھی ادارہ حقیقی معنوں میں اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نہ تو سمجھ پایا اور نہ ہی اس نے آئین کے دائرہ اختیار میں رہتے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، کئی مواقع ایسے آئے کہ جہاں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آئندہ کے لیے اپنا قبلہ صحیح کرنے کے مواقع میسر آئے مگر سب بےسود ثابت ہوئے۔
ملک میں جمہوری نظام کی ناکامی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو بھی ٹھہرایا جاتا ہے کہ جو ہر بار اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں آنے کو بےتاب دیکھائی دیتے ہیں، مگر اگر تمام مسائل کی جڑ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کو قرار دے دیا جائے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ ریاست کا ایک اہم ستون جس کی ذمہ داری ملک کے آئین کا تحفظ ہے وہ بھی اس تباہی میں برابر کا شریک ہے، جی ہاں یہاں بات ہو رہی ہے عدلیہ کی کہ جس نے ڈکٹیٹر ہو یا جمہوریت کے لبادے میں چھپی آمریت پر چڑھتے سورج کو سلام کیا اور ایسے ایسے فیصلے صادر فرمائے کہ جن کی نذیر ڈھونڈے نہیں ملتی۔
مقدمات کا فیصلہ جو بھی آئے اگر وہ انصاف پر مبنی ہو تو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے اسی طرح اگر ان فیصلوں میں انصاف کے اصولوں کی بجائے ذاتی پسند و ناپسند اور کسی کی من مرضی شامل ہو تو گزرتے وقت کے ساتھ ان فیصلوں پر صرف پچھتاؤں اور افسوس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی چند فیصلوں کی وجہ سے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتا گیا اور آج تک قوم ان فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے، آج ان ہی سیاہ اوراق سے کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنے ہیں۔
1954 سے آغاز کریں تو یہ وہ دور ہے کہ جب سپریم کورٹ کا وجود نہیں تھا، ملک میں فیڈرل کورٹ کا نظام رائج تھا، پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین تھے، انہوں نے 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے آئین ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ جبکہ گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ میں درخواست دائر کی۔
1955 میں جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے غیر آئینی اقدام کو درست قرار دیا، اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ ایک فیصلہ آئندہ آنے والے آمروں کیلئے سیاست میں دخل اندازی کا مؤجب ثابت ہوا، جسٹس منیر کے اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر 1958 میں جنرل ایوب خان کو فوجی مداخلت کا جواز ملا ایسے ہی روایت چلتی گئی اور ہر آنے والے آمر نے آئین سے کھلواڑ کرتے ہوئے منتخب جمہوری حکومتوں کو بے دخل کیے رکھا۔
5 جولائی 1977 ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت ختم کر کے مارشل لاء، نافذ کرنے اور انہیں گرفتار کیے جانے کے خلاف جب ان کی اہلیہ نصرت بھٹو سپریم کورٹ میں جنرل ضیاءالحق کے خلاف درخواست لے کر گئیں اور سپریم کورٹ سے اس غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام پر ریلیف مانگا تو ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کرتے ہوئے عدلیہ آمریت کے فرنٹ مین کے طور پر سامنے آئی اور نومبر 1977 کو مارشل لاء کی توثیق کر دی۔
سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ختم کیے جانے کے بعد عدالتی حکم پر پھانسی اُس وقت کے صدارتی امیدوار نواب قصوری کے قتل کے الزام میں دی گئی جس کو تاریخ میں"جوڈیشل مرڈر" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 90 کی دہائی میں 3 بار جمہوری حکومتوں کو آرٹیکل 58 ٹو بی کے صدارتی آرڈیننس سے بے دخل کیا گیا، جس میں معزز عدلیہ نے 2 بار صدارتی آرڈیننس کی توثیق جبکہ ایک بار رد کیا۔ اس تمام تر عمل میں عدلیہ کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی بطور اعلیٰ کار استعمال ہوتی دیکھائی دیں۔
جنرل مشرف نے منتخب حکومت کو برطرف کیا تو اسی کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو بھی برطرف کیا گیا جس کے بعد بڑی تعداد میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز نے مشرف کے غیر آئینی اقدام کو ویلکم کیا اور ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا، جولائی 2009 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 14 رکنی بینچ نے مشرف کی ایمرجنسی اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کی تقرریوں کو غیر آئینی قرار دیا۔
شہرہ آفاق پانامہ کیس کو کون نہیں جانتا کہ جس میں کم و بیش 500 پاکستانی افراد کے نام سامنے آئے تھے، اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا نام نہ ہونے کے باوجود کاروائی کا آغاز کیا گیا، اور ہر طرح سے منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی کوشش شروع ہوئی، چونکہ اس کیس کا مقصد نواز شریف کو ہٹانا اور اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے عمران خان کو ریس میں شامل کرنا تھا تو تمام تر حربوں کے باوجود بھی جب نواز شریف کے خلاف کچھ ثابت نہ ہو سکا تو اسی عدلیہ نے ایک بار پھر سے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا۔
یہ جانتے بوجھتے کہ ملک جو پہلے ہی کئی مشکلات سے گھیرا اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے وزیراعظم نواز شریف بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کر دیا اور استحکام کی جانب بڑھتے ملک کو بریک لگا دی گئی اور ملکی تاریخ میں عدلیہ کی جانب سے کئے جانے والے غیر مقبول فیصلوں کی فہرست میں ایک اور فیصلہ شامل ہوا، آج بھی کئی قانونی ماہرین اس فیصلے کو عدالتی تاریخ کا سب سے کمزور فیصلہ قرار دیتے ہیں، جس میں عدلیہ نے در پردہ کرداروں کی ایماء پر منتخب وزیراعظم کو بے دخل کیا تھا۔
اس تمام تر تباہی کو دیکھنے والوں نے عدالتوں کے غیر مقبول فیصلوں اسٹیبلشمنٹ کے آشرباد اور کندھوں پر سوار ہو کر آنے والے عمران خان کا جمہوری لبادے میں اُوڑھا بدترین آمریت کا دور بھی دیکھا کہ جہاں عدالتوں نے جی حضوری کی غضب داستانیں رقم کی اور ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کرنے والے عمران خان اور 75 سالوں سے تجربات کرتی فوجی قیادت کے ساتھ برابر کے شریک رہے۔
عمران خان کے جمہوری طریقہ کار سے بے دخلی کے بعد وقت تھا کہ ریاست کا ہر ادارہ خود احتسابی کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے اور 75 سالوں سے جاری تجربات اور نظریہ ضرورت کو دفن کرتے ہوئے خالصتاً ملک کا سوچا جاتا مگر بدقسمتی سے نظام عدل آج بھی مکمل آزاد نہیں ہو پایا اور بدستور مخصوص ایجنڈے پر چلتا ذاتی پسند ناپسند کے فیصلے صادر کرنے میں مصروف ہے۔
نظام عدل کے ہائی جیک ہونے اور ایڈونچر کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ ایک جانب عوامی نوعیت کے لاکھوں مقدمات جو سالہا سال سے زیر التواء ہیں اور تعداد میں بڑھتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی مقدمات ہیں کہ جن میں ملک کی اعلیٰ عدالتیں اس قدر جواں مردی سے کام کر رہی ہیں کہ عدالتی وقت سے زائد وقت بھی دیئے جا رہے ہیں اور چھٹی کے دن بھی سماعتیں ہو رہیں ہیں اور فیصلے بجلی کی سی رفتار سے صادر کیے جا رہے ہیں اور عوام انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔
عدلیہ کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ نظام عدل بدلا ہو یا نہ بدلا ہو مگر ملک کے عوام واقعتاً بدل چکے ہیں اب کسی سے فیصلوں کے پیچھے محرکات چھپے نہیں لہٰذا ان ذاتی نوعیت کے فیصلوں کی قوم کے سامنے کوئی وقعت نہیں، یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں آئین ہی کی بالادستی تسلیم ہوگی، اور تاریخ بھی لکھی جاتی رہے گی مگر یہ نظام عدل پر منحصر ہے کہ انہوں نے تاریخ کے سیاہ باب میں نام درج کروانا ہے یا پھر تادیر قائم رہنے اور آئندہ کیلئے بطور مثال سنہری باب میں امر ہونا ہے۔