South Asia Aur Gore Rang Ka Bukhar
ساؤتھ ایشیا اور گورے رنگ کا بخار
ایسا انسان جو حالات و واقعات کو دیکھ کر اُن پر سوال نہ اٹھائے، کوشش کرنے سے پہلے ہار کو تسلیم کر لے وہ بڑے خسارے میں رہتا ھے، اسکو جس راہ لگاؤ وہ لگ جائے گا، ہمارے لوگوں کی اکثریت بھی ایسی ھے۔ بظاھر تو انگریزوں کی غلامی سے خود کو چھوڑوا لیا لیکن آج تک انکے بتائے اُصولوں کی پرستش کرتے ھیں۔ انکی چلی چالوں میں پھنسے بیٹھے ہیں۔ انگریز آج بھی بڑی زہانت سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں اور بڑی چالاکی سے ہمیں تفرقوں میں بانٹا ھوا ھے، "خوبصورتی" بھی ان چیزوں میں سے ایک ھے جو وہ ہمیں بتاتے ہیں کے کیا ہونی چاہیے۔ انسان کو خدا نے بڑے پیار سے اور بڑا خوبصورت بنایا ھے، انسان کی فطرت ہے کے اسے خوبصورتی پسند ہے۔ خوبصورت دِکھنا اور خوبصورتی کو پسند کرنا بجا ہے مگر سوال یہ ہے کے خوبصورتی ہے کیا؟ جس کو آپ خوبصورت کہ رہے ہیں کہیں وہ حقیقتً کسی بڑی پاور کی چلی کوئی چال تو نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کے یہ سمجھا جائے کے جو خوبصورتی کا معیار آپکے سامنے رکھا گیا ہے وہ کس نے تعمیر کیا ہے اور اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟
دنیا کی تمام کولونائزڈ قومیں ان چیزوں کا شکار ہو جاتی ہیں جہاں وہ اپنی شناخت کوسہی معنوں میں سمجھ نہیں پاتیں، برِصغیر پر انگریزوں نے حکومت کی تو ہم نے تسلیم کر لیا کے وہ حاکم ہیں اور ہم غلام، اسنے کہا کے میں برتر ہوں اور تم کم تر اور ہم نے مان لیا۔ سیڑھی کے نچلے حصے پر کھڑا انسان جب اوپر کھڑے انسان کو دیکھتا ہے تو اس سے فیسینیٹ ہوتا ہے اور اس جیسا ہونا چاہتا ہے، انگریز نے بڑی ذہانت سے انسان کی اس فطرت کو سمجھا اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ ہمارے لیے خوبصورتی کے ایسے معیار تعمیر کیے جن کے پیچھے ہم اندھا دھن بھاگ رہے ہیں، گورا رنگ ایک ایسا معیار ہے جو انگریز ہمارے لیے کھڑا کر کے چلے گیے ہیں جبکے وہ جانتے تھے کے نہ تو ہمارے آبا گورے تھے نہ آنے والی نسل ہوگی، اس لیے ہماری آسانی اور اپنے مفاد کے لیے بڑی بڑی انڈسٹریز لگا دیں جو ہر روز ہمیں انسیکیور بنانے کا کام کرتی ہیں اور ہماری انسیکیوڑٹیز سے پیسے کماتی ہیں۔
آج کی دنیا کیپٹلیسٹک ہے جس سے کوئئ انکار نہیں، ویسٹرن الیٹس آئے دن سوفٹ پاور کے ذریے ہمارے اندر کوئی انسکیوڑٹی پیدا کرتے ہیں اور بڑے پیار سے اسکا کوئی مہنگا سا حل بھی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیڈیا کے گورا رنگ خوبصورتی کے مترادف ہے ہمارے اندر ڈال چکے ہیں اور ہر ماہ کسی نئی فیرنس کریم کا اشتہار لگاتے ہیں، پہلے مسئلہ بنایا جاتا ہے، پھر اسکا مہنگا علاج نکالا جاتا ہے اور پھر اُس سے منافع کمایا جاتا۔ دنیا میں انہیں کیپٹلیسٹک اصولوں سےوہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں اور ہم انہیں مزید طاقتور کرنے میں بھڑ پور مد د کر رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ ٹرینڈ پورے ساؤتھ ایشیا کی طرح بہت پایا جاتا ہے، میڈیا ایک ایسا ٹول ہے جو لوگوں کی سوچ تبدیل کر سکتا ہے، میڈیا میں دکھائی جانے والی چیزیں انسان کے سب کونشیس میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں، ہمیں اس وقت بےحد ضرورت ہے کے اس ٹول کو استعمال کر کے اپنے لوگوں میں شعور پیدا کریں۔ ہمارے ہاں تمام لیڈنگ ایکٹرز جو فلموں ڈراموں میں روز لوگوں کی نظروں کے سامنے آتے ہیں سب ایک مخصوص رنگ کے ہوتے ہیں اور افسوس ناک بات ہے کے ڈارک سکن ٹون کی رپریزنٹیشن تو دور کی بات ہے انہیں مزاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
میڈیا جو چیز مثبت انداز میں پیش کرتا ہے لوگ اسے سہی سمجھتے ہیں، جب تک مختلف رنگوں کے لوگوں کو میڈیا میں رپڑیزنٹیشن نہیں ملے گی، ان کو مثبت انداز میں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا تب تک لوگوں کے زہن تبدیل نہیں ہونگے۔ میڈیا میں موجود لوگوں کو اس چیز کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ میڈیا میں ہر رنگ نسل کے لوگوں کو رپریزنٹیشن دینے کی ضرورت ہے ارو اس بات کو سمجھنے کی کے ہر رنگ خوبصورت ہے، ہر شخص منفرد ہے اور اس انفرادیت کی ہمیں عزت کرنا ہوگی اور ویسٹرن پیٹریارکل خوبصورتی کر معیار کی پرستش کرنا چھوڑنا ہوگا ورنہ ہم ایک سٹ خوبصورتی کے معیار کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی شناخت مکمل طور پر کھو دیں گے اور دوسرے جیسا لگنے کی چاہ میں خود سے مخبت کرنا بھول جایں گے۔