Wazir Azam Sahab Ikhlaqiat Deemak Ka Shikar
وزیراعظم صاحب اخلاقیات دیمک کا شکار
وزراء کے ٹی۔ وی چینلز پر پریس کانفرنسوں سے اقبال کے شاہینوں کے اخلاق بگڑ رہے ہیں۔ افراتفری پھیل رہی ہے، شرم ناک سیاست جنم لے رہی ہے۔ حالانکہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جمہوریت کی گاڑی کے چلتے رہنے کے لیے ان دونوں کا بھی ایک ساتھ اور ایک سمت میں چلنا ضروری ہے۔ مگر یہاں بدقسمتی سے یہ صورتحال نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن کو گلے شکوے ہیں تو حکومتی وزراء بات کو کچی لسی کی طرح بڑھاکر ماحول کو مزیدآلودہ کر رہے ہیں۔
ابن خلدون شہرہ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں بتاتا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہیں جبکہ برے اخلاق والی قوم زوال پذیر ہوتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب آپ خود فرماتے ہیں کہ نوجوان نسل آپ کے شانہ بشانہ ہے آپ کو کرکٹر سے وزیراعظم بنانے میں نوجوان نسل کا کردار قابل قدر ہے نوجوان نسل آپ کو اپنا ہیرومانتے ہین جیسے ایک خاندان میں سربراہ ہوتا ہے جو پورے خاندان کا محافظ ہوتا ہے اور سربراہ کا کام صرف آرڈر دینا، خطاب کرنا، اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینا نہیں ہوتا، سربراہ کا کام برداشت اور فہم و فراست سے معاملات کو افہام تفہیم سے حل کرنا ہوتا ہے۔
سیگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک زبان کا پھسلنا ایک ایسی علامت ہے جس پر غوروفکر کرنے سے اس شخص کی سوچ اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا بخوبی علم ہو سکتا ہے۔ جب کوئی اشتعال انگیز تقاریر، پریس کانفرنسیں، غرور، گمنڈ اور مطلق العنانیت جب قوموں اور حکومتوں میں پیدا ہوتی ہے تو یہ ایک ڈویلپمنٹ بلکہ بڑی گہری ڈویلپمنٹ ہوتی ہے اور اس کے بعد جب کوئی حکومت، کوئی مملکت یا کوئی طرز معاشرت یا زندگی وہ ڈیموکریٹک یا شعورائی انداز سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہو تو پھر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب جمہوریت بوڑھی ہو گئی، کمزور پڑ گئی یا بیمار ہوگئی ہے اور اس کے آخری ایام ہیں کسی بھی قوم کے وزراء میں غرور و تکبر یا گمنڈ آجائے تو اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جمہوریت جس کو صدیوں سے لر کر چلے ہیں اب کمزور اور ماءوف ہو گئی ہے۔
اس کے بڑے روپ ہیں اونچے بھی ہیں اور نیچے بھی ہیں ان کو سنبھالا دینا اور ان کے ساتھ حکمت عملی کے ساتھ چلنا ہی اصل سیاست ہے۔ ہماری تربیت میں یہ شامل نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا مقصد حیات بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر سامنے والے کو نیچا دیکھانا اس کی تذلیل کرنا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں جتنی بھی بے جان چیزیں ہیں یہ انسان کی خدمت کے لیے دیوانا وار چل رہی ہیں آدمی آدمی کی خدمت کرنے کو تیار نہیں لیکن سورج بہت پریشان ہے وہ کہتا ہے کہ میری ساری کرنیں لے لو لیکن اے پہاڑو انسان کو کسی نہ کسی صورت پانی پہنچنا چاہیے۔
ہم آخر کس طرف چل رہے ہیں؟ ہم کہاں سے چلے تھے؟ ہمارا حال کیا ہے؟ ہمارے اندیشے اتنے بے سبب بھی نہیں ہیں۔ ہم دشمن سے ڈرنے والے نہیں۔ ہ میں اگرکبھی خوف ہوا تو صرف دوستوں کا، اپنوں سے ڈر ہے۔ اپنے اپنے ہو جائیں تو بیگانے کا کیا خوف۔ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی غرض سے حاضر ہوا، قابلیت پوچھی گئی، کہا سیاسی ہوں (عربی میں سیاسی، افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں)۔
بادشاہ کے پاس سیاستدانوں کی بھرمار تھی لہذا اسے گھوڑوں کے صطبل کا انچارج بنا دیا۔ چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا نسلی نہیں ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا اس نے جنگل سے سائیس کو بلا کر دریافت کیا س نے بتایا گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی۔ یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے۔ مسول کو بلایا گیا تم کو کیسے پتا چلا کہ گھوڑا نسلی نہیں ہے؟ اس نے کہا جناب عالی جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائے کی طرح سر نیچے کر کے کھاتا ہے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا کر کھاتا ہے۔
باد شاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا اور اس کے گھر اناج، گھی، بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا۔ اور اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا۔ چند دن بعد بادشاہ نے مصاحب سے ملکہ کے متعلق رائے طلب کی۔ اس نے کہا بادشاہ سلامت یہ طور و طریقے سے تو ملکہ دکھتی ہیں مگر یہ شہزادی نہیں تھی۔ بادشاہ آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے فوراساس کو ملنے کے لیے پیغام بھیجا۔ بادشاہ نے ساس سے پوچھا تو ساس نے تصدیق کر دی کہ یہ بات درست ہے اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری بیٹی 6 ماہ کی عمر میں ہی وفات پا گئی۔
ہم نے آپ لوگوں کے ساتھ تعلقات، بادشاہی کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے لے پالک بچی کی آپ سے شادی کر دی۔ بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا کہ اسے ملکہ کے شہزادی نہ ہونے کا کیسے علم ہوا تو اس نے کہا کہ ملکہ کا خادموں کے ساتھ سلوک ان پڑھ لوگوں سے بھی بدتر ہے۔ شہزادیاں ایسا سلوک نہیں کیا کرتیں۔ بادشاہ ایک بار پھر متاثر ہو کر اسے اناج، بھیڑ، بکریاں بطور انعام دیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بادشاہ نے مصاحب کو بلا کر پوچھا کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے تو مصاحب نے کہابادشاہ سلامت جان کی امان کا وعدہ دیجیے۔
بادشاہ نے ہاں میں سر ہلا دیا تو مصاحب بولا نہ تو آپ بادشاہ زادے ہیں اور نہ ہی آپ کی ا ُ ٹھک بیٹھک بادشاہوں والی ہے۔ بادشاہ کو غضب و غصہ آیا مگر جان کی پناہ دے چکا تھا فورا والدہ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا ایسا کچھ ہے تو والدہ نے کہا واقعی یہ بات سچ ہے ہماری اولاد نہیں تھی تم ایک چروائے کے بیٹے ہو، ہم نے تمہیں لے کر پالا ہے۔ بادشاہ نے فورا مصاحب کو بلا کر پوچھا کہ تمہیں یہ سب کیسے پتا چلا تو مصاحب نے بولا بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیتا ہے تو ہیرے، موتی اور جواہرات دیتا ہے بھیڑ، بکریاں نہیں۔ یہ ایک چرواہا ہی ایسا کر سکتا ہے۔
آج جب وطن عزیز میں ٹی۔ وی پروگراموں پر ٹی۔ وی سکرین پر وزراء اور حاکم ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں، شرمناک ویڈیوز میڈیا پر چلائی جاتی ہیں یہ کیسی سیاست ہے؟ یہ کیسے معاشرے کے بنیاد رکھ رہے ہیں؟ یہ کیسی خدمت خلق ہے؟ یہ کیسی انسانیت ہے؟ اقبال کے شاہینوں کو ہم کیا تہذیب سیکھا رہے ہیں؟ یہ کیسی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے؟ وطن عزیز بے انتہاء مسائل سے دوچار ہے معیشت زمین بوس ہو چکی ہے۔
تعلیمی نظام پر نت نئے تجربے ہو رہے ہیں، کرپشن کا باب سرگرم ہے، بیمار و بوڑھے سرکاری ہسپاتوں کے دھکے اور ڈاکڑوں کے ہاتھ اپنی درگت بنوا رہے ہیں ادوایات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، غریب لاچار کھڑا ہے، قوم آپکی طرف دیکھ رہی ہے کہ کوئی معجزہ ہو اور انہیں کوئی غریب بجٹ اناونس ہومگر وزراء اپنے اداروں کو وقت دینے کی بجائے ٹی۔ وی چینلز پر ایک دوسرے کا تمسخر بنانے میں مشغول ہیں۔ وزیراعظم صاحب اگر اخلاقیات کے نکلتے ہوئے جنازے کا اپنے فل فور ایکشن نہ لیا تو آج نہیں تو کل نسل نو آپ کو معاف نہیں کرے گی۔