Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Qureshi
  4. Saneha APS Ya Karb Hi Karb

Saneha APS Ya Karb Hi Karb

سانحہ اے پی ایس یا کرب ہی کرب

مائیں دروازے تکتے رہ گئیں اوربچے اسکول سے جنت چلے گئے۔ دسمبر کا مہینہ آتے ہی دل و دماغ میں ہولناکیاں گوجنے لگ جاتی ہیں، وطن عزیز کی تاریخ کا سیاہ، غمناک ترین دن16دسمبر، وہ کلیا ں جنہوں نے پھول بننا تھا اور پھول بن کر وطن عزیز پاکستان کو مہکانا تھا، معمار بننا تھا، بھاگ دوڑ سنمبھالنی تھی، والدین و استاتذہ کے خواب پورے کرنے تھے۔ نہ جانے کتنی مشکلات، جتن، لاڈ و پیارسے اولادیں پلتی ہیں نہ جانے کتنے رت جگے اولاد کی سُکھ کی نیند کے لیے ماں، باپ کاٹتے ہیں۔

مگر سد افسوس بزدل دشمن نے ان معصوم پھولوں کی ماوؤں کی گودیں اجاڑ دی، سفاکی سے خون کی ندیاں بہا دیں۔ دل دہلا دینے والا سانحہ جس نے ہنستے مسکراتے گھروں کے آنگن ویران کر دیے۔ سینکڑوں گھرانوں میں صف ماتم بچھا دیا۔ ہر ذی شعور انسان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، پاؤوں تلے زمین نکل گئی۔ سینکڑوں کی تعداد میں خون سے لتھڑے ہوئے پھولوں کو جب ہسپتال لے جایا گیا تو دن، رات میتوں کو دیکھنے والے ڈاکٹرز اور نرسز عملہ بھی بے ساختہ زارو قطار روتا رہا، ہسپتالوں میں قیامت برپا تھی، حد نگاہ تک تابوتوں میں ان پھولوں کو لیجایا جا رہا تھا۔

ماں، باپ صدمے سے ہوش کھو چکے تھے، درد کی کیفیت، کرب کی کیفیت، الم کی کیفیت طاری تھی وطن عزیز کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں معصوم بچوں کے ساتھ سفاکانہ، وحشیانہ منظر، قیامت خیز مناظر پیش کر رہا تھا۔ میں تو ہسپتال میں اس ننھے پھول کی ڈیڈ باڈی کو نہیں بھول سکتا جو عرش کی طرف منہ کر کے فریا د کر رہا تھا کہ ہمارا قصور کیا تھا؟ مجھے کس جرم کی سزا دی گئی؟ وہ تو دہشت گردی کے مفہوم سے بھی آشنا نہیں تھے۔ ان کلیوں کو کلی سے پھول بننا تھا۔

سانحے گزر جاتے ہیں مگر اپنی آہٹیں چھوڑ جاتے ہیں اور یہ آہٹیں موقع بہ موقع دل دہلا تی رہتی ہیں۔ جب گھر میں پڑے بچوں کے کھلونے، گھروں میں موجود کتابیں، گھروں میں دل و جان سے لگا کر رکھے ننھے، منے پھولوں کے کپڑے حتی کہ اولادکا ہر ہر قدم ماں، باپ کے دل دھڑک دھڑک جاتا ہے۔ جب وہ لمحہ ان والدین کو یاد آتا ہے جب ان کا جگر گوشہ ننھے منے ہاتھوں سے انہیں پانی پلاتا تھا اور اس پانی کی ٹھنڈک ان کی روح تک کو سیراب کرتی ہوگی، کیسے انہیں موقع بہ موقع دل دہلا دیتی ہونگی۔ جب آنگن اُجڑ جاتے ہیں۔

قوم ابھی تک اس سانحہ اے۔ پی۔ ایس واقعے کو نہیں بھولی اور خاص طور پر جب بھی کوئی وطن عزیز میں ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں زخم مندمل ہونے کی بجائے تازہ ہو جاتے ہیں۔ بزرگوں سے اکثر کہانیاں سنتے تھے کہ ایک سنارن کا بیٹا گم ہو گیا وہ مصلہ بچھا کر بیٹھ گئی اور قسم کھائی۔ اے اللہ جب تک میرا بیٹا واپس نہیں ملے گا اس مصلے سے نہیں اٹھوں گی جانے کتنے دن یا مہینے گزر گئے اور وہ اللہ والی بیٹھی رہی، اس کو بیٹھے بیٹھے زخم ہو گئے اور وہ زخم بھی بگڑ گئے، مگر اس مامتا کی بے لوث محبت اور لگن میں ذرا سا بھی فرق نہیں پڑا۔ آخرکار ایک دن اسے اس کا بیٹا مل گیا۔ دنیا میں ایسے لمحات دراصل انسان کی آزمائش کے لیے ہوتے ہیں ان کے ذریعے قدرت انسان کو پرکھتی ہے۔ کہ وہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں صابر بن کر اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر تا ہے کہ نہیں۔

حضرت مولانا جلال الدین رومی کتاب حکایت رومی میں لکھتے ہیں کہ ایک عورت کے ہاں یکے بعد دیگرے 20 بچوں کی پیدائش ہوئی مگر وہ ولادت کے دو ماہ بعد ہی وفات پا جاتے۔ اس طرح بیس بچے اس کی گود خالی کر کے اللہ کو پیارے ہوئے۔ بیسواں بچہ مرنے پر اُسے بڑا صدمہ ہوا اور وہ غم سے بے خود ہو کر بول اُٹھی اے اللہ! تیری دہائی، مجھ سے ایسی کیا تقصیر ہوئی ہے اور صرف یہ خوشی دو ماہ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اُمید کا درخت جب پھل لاتا ہے تو صرف دو مہینے اس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ میرا کوئی بچہ پروان نہ چڑھا۔ یہ کہتے ہی اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنا شروع ہو گئے اور وہ روتے روتے سو گئی۔

خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ ایک ایسا شگفتہ پُر بہار چمن ہے جس پر دُنیا کے تمام باغ نثار ہوں۔ یہ جنت تھی جو اُسے دکھائی گئی۔ جنت کو باغ سے نسبت دینا ویسا ہی ہے جیسا کہ نورِ خالق کو شمع سے مثال پیش کرنا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ دنیا میں جنت کو مثل کوئی چیز ہے نہ کوئی اللہ کی طرح کوئی شے۔ صرف ایک خیال دلانے کے لیے ان چیزوں کو بطور مثال پیش کر دیا جاتا ہے۔

اُس عورت نے خواب میں دیکھا کہ چمن کے اندر ایک محل ہے جو چاندی اور سونے کی اینٹوں سے بنا ہو اہے اور اینٹیں مشک اور کافور سے چنی ہوئی ہیں۔ اس محل پر موٹے حروف میں اُس عورت کانام لکھا ہے اُس کے اندر جا کر عورت نے دیکھا کہ اس میں ہر طرح کی نعمتیں موجود ہیں۔ اُسے وہاں اپنے سب بچے مل گئے جو اُسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ ایک فرشتے نے اُس عورت سے کہا کہ تو نے جو بچوں کے مرنے پر صبر کیا تھا، یہ اس کا اجر ہے کہ اللہ نے تیرے لیے عالی شان مکان بہشت میں بنایا ہے۔ جہاں تیرے سارے بچے بھی موجود ہیں۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اس کا تمام ملال جاتا رہا کیوں کہ اُس نے سمجھ لیا کہ چند روز زندگی کے بعد اُسے بہت اچھے ٹھکانہ ملنے والا ہے اور چند دن کے فراق سے اپنے بچوں سے دائمی ملاقات ہونے والی ہے۔

آخر میں مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ جو شخص مصیبت پر صبر کرتا ہے اللہ اُسے بڑا اجر دیتا ہے۔ دہشت گردی مقامی، علاقائی مسئلہ نہیں یہ اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کی بنیادوں پر سدباب کے لیے مربوط اور ٹھوس بنیادوں پر تدارک پر عمل ہر سطع پر نافذالعمل ہے۔ ریاست پاکستان نے اے۔ پی۔ ایس سانحہ کے بعد رب ذولجلال کو گواہ بنا کر یہ عہد کر لیا ہے کہ جب تک عرض پاک سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہ ہو جائے حق و باطل اور بقا و فنا کی یہ جنگ جاری و ساری رہے گی۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam