Kya Masla Sirf Chaye Ka Hai?
کیا مسئلہ صرف چائے کا ہے؟
گزشتہ حکومت کو جب اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے چینی کا بحران در پیش آیا تو وزراء نے اپنی کارکردگی اور پالیسیوں پر غور فرمانے کی بجائے قوم کو مشورے دینے شروع کر دیے کہ کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ جو چینی کے بغیر گزارہ نا کر سکیں؟ سابق وفاقی وزیر صاحب نے بھرے مجمعے میں فرمایا کہ قوم کو چاہئے کہ جہاں چائے میں 100 دانے چینی ڈلتی ہے وہاں 10، 15 دانے کم ڈال لے۔
جب زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں آٹے اور گندم کا بحران پیدا کر دیا گیا تو کہنے لگے کہ قوم جہاں دو روٹیاں کھاتی ہے وہاں ایک پر گزارہ کر لے۔ اب موجودہ حکومت نے بھی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار اسی قوم کو ٹھہرا دیا ہے کہ جو چائے پی پی کر معیشت کو تباہ کر چکی ہے اور ابھی بھی اس عیاشی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہمارے لیڈران کی حساس ترین سوچ کا برملا اظہار ہے لیکن ہماری قوم ہے کہ اس بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہی نہیں جو اس پر میمز بنا رہی ہے، لطیفے سنا رہی ہے اور کہیں ٹسوے بہا رہی ہے۔
سیاسی لیڈران اس قوم کے رہبر و رہنما ہوتے ہیں۔ قومیں ان کی اقتداء میں چلتی ہیں۔ یہ اگر کفایت شعاری کا درس دے کر اپنے مذاق بنوانے کی بجائے ایک دفعہ خود اس کا عملی مظاہرہ کر کے دکھا دیں تو لوگ ان کی اس فکر مندی کو یقیناََ سنجیدگی سے لے لیں۔ لیکن یہاں حقائق الٹ ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمیں اقتصادی توازن قائم کرنے کے لیے ہر اس چیز کو ترک کرنا چاہئے کہ جو چیز ہمیں باہر سے امپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم چائے امپورٹ کرنے پر ملک کا سرمایہ باہر بھجوا دیتے ہیں جس سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ سرمایہ پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنے پر صرف کرتا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ دس ماہ میں 17 ارب 3 کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم پٹرولیم مصنوعات کو امپورٹ کرنے پر صرف کی ہے۔ پاکستان جتنا تیل استعمال کرتا کہ اس کا محض 15 فیصد خود پیدا کرتا ہے باقی 85 فیصد ہمیں باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ کیا اس کے ضیاع پر کبھی ہم نے سنجیدگی سے سوچا ہے؟ بلکہ جو مراعات یافتہ طبقہ سرکاری گاڑیوں کو ذاتی استعمال میں لا کر ان گاڑیوں میں اس تیل کی بجائے اس قوم کا خون جلا رہا ہے اس پر ہم نے کبھی غور کیا ہے؟
کیمیکلز امپورٹ کرنے پر 12 ارب 11 کروڑ 53 لاکھ ڈالرز، مشینری امپورٹ کرنے پر 9 ارب 55 کروڑ 18 لاکھ ڈالرز، زرعی ملک ہونے کے باوجود حکمرانوں کی ناقص ترین پالیسیوں کے باعث 7 ارب 74 کروڑ 76 لاکھ ڈالرز کی خوردنی اشیاء، 3 ارب ڈالرز پام آئل خریدنے پر جبکہ 1 ارب 81 کروڑ ڈالرز موبائل فونز خریدنے پر لگائے ہیں۔ جبکہ ہم محض ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے آئی ایم ایف کے آگے تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور ہوئے پڑے ہیں اور وہ ہمارا ساری دنیا میں تماشہ بنا رہا ہے۔
ہمارا سب سے زیادہ سرمایہ پٹرولیم مصنوعات کو منگوانے میں لگ رہا ہے اور ان مصنوعات کا کم استعمال کرنا ہمارے لیے چائے کم پینے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ کیا آپ نے پورے ملک سے پروٹوکول کا خاتمہ کر دیا ہے؟ کیا افسران اور حکمران درجنوں گاڑیوں کے شاہانہ قافلے ساتھ لے کر نکلنے سے رک گئے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں مٹھی بھر اشرافیہ کے لیے روٹ لگنے بند ہو گئے ہیں؟ یہاں ابھی بھی روٹ لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے غریب سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے ذلیل ہوتا رہتا ہے۔
ایک ارب اور کچھ کروڑ ڈالر (جو پاکستانی قوم اپنی جیب سے ادا کرتی ہے) کی چائے منگوانا ہمیں جتنا ناگوار گزر رہا ہے کاش 17 ارب ڈالر لگا کر منگوانے والا آئل بھی ہمیں اتنا ہی ناگوار گزرتا۔ اس تیل کا یہاں حکمران اور افسران بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور اس کی قیمت بھی وہ ملک ادا کر رہا ہے جو پہلے سے مقروض ہے اور دوبارہ بھی ان کی عیاشیوں کا انتظام کرنے کے لیے در در کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔
ہمارے ملک کی معیشت کی اتنی نازک صورتحال ہے کہ اب اس کو چائے سے بھی خطرات لاحق ہیں لیکن پھر بھی ہم نے افسران اور حکمران طبقے کی تنخواہوں اور مراعات میں اس بجٹ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے افسران اور حکمران طبقے کی گھروں میں کتنی کتنی سرکاری گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جو سرکاری ڈرائیوروں سمیت ان کے بچوں اور بیویوں کے ناز و نخرے اٹھانے پر مامور ہیں۔
اگر یقین نہیں آتا تو سکول اور کالجز کے باہر کھڑے ہو کر خود ملاحظہ فرما لیں کہ روزانہ کتنی سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ان کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولتیں دینے پر مامور ہیں۔ یا سبزی والی دوکانوں کے باہر کھڑے ہو کر دیکھ لیں کہ کیسے ان لوگوں کے لیے سبزیاں پہنچانے کے لیے بھی سرکاری گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ ایک طرف وسائل کا یوں بے دریغ استعمال ہو رہا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ کہ جن کو بمشکل دو وقت کی روٹی اور دو کپ چائے دستیاب ہے ہم ان کے نوالے اور گھونٹ گننے پر مصروف ہیں۔
ان مراعات پر سالانہ کھربوں روپے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر یہ مراعات ختم کر دی جائیں تو سالانہ 400 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔ اور اگر افسران اور حکمران اپنے اپنے استعمال میں ایک سے زائد سرکاری گاڑیاں بھی واپس کر دیں تو کھربوں روپے کی بچت ہو گی۔ لیکن اس طرف کسی کی نظر نہیں جائے گی یہاں سب کے پر جلتے ہیں۔ کفایت شعاری اور بچت کے مشورے صرف ان لوگوں کے لیے ہیں کہ جن کے پاس ان چند نوالوں کے سوا ہے بھی کچھ نہیں۔
اس بجٹ میں صرف وزراء کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں 37 کروڑ 17 لاکھ روپے کی رقم مختص ہے۔ صدر مملکت کے باغ کے لیے 4 کروڑ 88 لاکھ 90 ہزار روپے مختص ہیں۔ وزیراعظم صاحب کی گاڑیوں کے لیے 5 کروڑ اور ان کے باغ کے لیے 2 کروڑ 92 لاکھ روپے مختص ہیں۔
یہ گاڑیاں بھی تو ہم باہر سے امپورٹ کرنے پر اسی ملک کا قیمتی ترین سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ کیا کسی وزیر نے کبھی اتنی ہمت کی کہ وہ اس امپورٹڈ گاڑی میں سفر کرنے سے منع کر دے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا شروع کر دے۔ یہ تو درکنار ہمارے ہاں تو ستر برس سے کسی نے اتنی ہمت نہیں کی کہ وہ اس ملک میں گاڑیاں تیار کرنے کا انتظام کروا دے۔
ہم اپنے ملک کا سارا سرمایہ باہر بھیج کر جو ٹین ڈبے منگواتے ہیں ان میں وہ حفاظتی کٹس ہوتی ہی نہیں جو دیگر ترقی یافتہ ممالک میں گاڑیوں میں لگائی جاتی ہیں۔ دیگر ممالک میں ہر گاڑی میں 8 ائیر بیگز ہوتے ہیں جو بوقت حادثہ کھل جاتے ہیں اور سوار کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جو کروڑوں روپے کے ٹین ڈبے آتے ہیں ان میں ایک ایک ائیر بیگ ہوتا ہے وہ بھی بوقت حادثہ نہیں کھل پاتا۔ یوں ہر سال ہمارے ملک میں 35 ہزار جانیں حادثات کی نذر ہو جاتی ہیں اور قریباََ 50 ہزار لوگ زخمی ہوتے ہیں۔
کاش ہم نے اپنے ہمسائے ملک سے ہی کچھ سبق سیکھا ہوتا کہ جس نے گاڑیوں کے پارٹس بنوانے والے پلانٹس اپنے ملک میں لگوائے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ملک میں گاڑیاں تیار کرواتے ہیں جس سے ان کا سرمایہ بھی بچ جاتا ہے، گاڑیاں بھی سستی قیمت میں تیار ہو جاتی ہیں اور وہ اس کا معیار بھی اپنی مرضی کا بناتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر ہمارا مسئلہ چائے ہی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کے جو علاقے چائے کے لیے قابل کاشت ہیں وہاں اس کی کاشت کاری پر توجہ دے۔