Jadeed Riyaston Ke Bani
جدید ریاستوں کے بانی
وہ تین براعظموں کے حکمران تھے لیکن درخت کے نیچے پتھر پر سر رکھ کر سو جایا کرتے تھے۔ وہ 28 لاکھ مربع میل کے خلیفہ راشد تھے لیکن لباس پیوند لگے پہن لیتے تھے۔ وہ آدھی دنیا سے زائد کے امیرالمومنین تھے لیکن فرات کے کنارے کتے کی بھوک کی بھی تڑپ رکھتے تھے۔ وہ ایسے رعب و دبدبے کے مالک تھے کہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے شیطان بھی نا گزر پاتا تھا لیکن انکی رعایا میں سے کمزور ترین شخص بھی بھرے مجمع میں تن پر پہنے لباس کا حساب مانگ لیتا تھا اور وہ حکمرانی کا استحقاق اور طاقت کی چادر نہیں اوڑھتے تھے بلکہ بھرے مجمع میں جواب دیتے تھے۔ صفائیاں پیش کرتے تھے۔
وہ رات کو لوگوں کی چوکیداری کرکے بتاتے تھے کہ میں حکمران نہیں بلکہ آپکا چوکیدار ہوں۔ وہ جو وجد میں آ کر بول دیتے تھے اللہ انکے الفاظ کو قرآن بنا دیتا تھا۔ وہ جب اسلام لائے تو مسلمان چھپ کر عبادت کررہے تھے لیکن ان کے مسلمان ہونے کی خوشی میں جب دارارقم میں نعرہ لگا تب مکہ کے در و دیوار ہل گئے۔ وہ جب نبی کریم ﷺ کی غلامی میں آئے تو کہا کہ آج عمر کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میرا نبی چھپ کر نماز ادا کرے۔ اپنے آقا کریم ﷺ کو لے کر خانہ کعبہ میں پہنچ گئے اور پورے مکے کے چوہدریوں کو للکار کر کہا کہ جس نے اپنے بچے یتیم کروانے ہیں اور اپنی بیوی کو بیوہ کروانا ہے وہ آئے اور عمر کا راستہ روک لے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ مکہ کی ساری طاقت اور چوہدراہٹ ہاتھ ملتے کھڑی نظر آئی لیکن عمر کے سامنے آنے کی جرات نا کرسکی۔
وہ جب دریائے فرات کے رک رک کر چلنے کا ریاست کو درپیش مسئلہ سنتے ہیں تو ایسا انوکھا کام کرتے ہیں کہ آج تک دنیا کی کوئی ریاست مسائل کے حل کے لیے ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ دریائے فرات کو لکھتے ہیں کہ اگر اللہ کے حکم سے چلنا ہے تو پھر چل اور اگر یہی ڈرامے کرنے ہیں تو ہمیشہ کے لیے خشک ہوجا ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں۔ دریائے فرات پھر ایسا چلتا ہے کہ چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی کبھی نہیں رکتا۔ وہ جرات و بہادری اور قیادت کی ایسی مثال تھے کہ نبی کریم ﷺ کو غلاف کعبہ پکڑ کر عمر مانگنا پڑا۔
عمر کو اللہ سے مانگا اور اللہ نے اپنے نبی کو عطاء کردیا پھر اس کے بعد اسلام کی ترویج کا ایسا تیزی سے سفر شروع ہوا کہ جس پر آج تک لوگ انگشت بدنداں ہیں۔ وہ عمر عدل کی معراج پر فائز تھے۔ جسے اللہ کے نبی نے فاروق کا خطاب عطاء فرمایا تھا۔ وہ عمر کمالات نبوت کی عملی تصویر تھے ایسی تصویر کہ جس کی دنیا آج تک کوئی ایک مثال بھی پیش نا کرسکی۔ خود کہا کرتے تھے کہ عمر کا باپ کہتا تھا کہ یہ تو اونٹ بھی نہیں چرا سکتا لیکن کمالات نبوت دیکھیے کہ وہی عمر جب نبی کریم ﷺ کی شاگردی میں آیا تو آدھی سے زائد دنیا کا امام بن گیا اور ایسا مثالی حکمران ثابت ہوا کہ آج تک ریاستی امور میں قائم کیے گئے انکے محکموں کو دنیا بطور ماڈل استعمال کررہی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کمالات نبوت سے ایسے فیض یاب ہوئے کہ رسول نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن میں آخری نبی ہوں۔
انہوں نے بغیر کوئی جنگ کیے مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس فتح کیا۔ بیت المقدس مسلمان، مسیحی اور یہودیوں کا مشترکہ اہم مذہبی مقام ہے۔ جس وقت حضرت عمر نے اسے فتح کیا تب وہاں مسیحی قابض تھے اور انہوں نے یہودیوں کو وہاں سے بے دخل کر رکھا تھا۔ انکا معبد بھی ختم کردیا ہوا تھا۔ یہودیوں کو بیت المقدس میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسیحیوں کو بھی عبادت کی اجازت دی اور یہودیوں کو بھی وہاں معبد تعمیر کروا کر دیا اور انہیں بھی عبادت کی اجازت دی۔ پوری دنیا کو پیغام دے دیا کہ اسلام عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے اس میں شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ تمام مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ موجود ہے۔
انہوں نے اپنے دور میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بیت المال (ریاستی خزانہ) سے وظائف مقرر کیے اور تسلسل کے ساتھ بوڑھے غیر مسلموں کو ریاست وظیفہ دینے کی پابند تھی۔ انہوں نے عورتوں کی عزت اور حرمت کے لیے عرب کی روایات میں چلتی آنے والی روایات بند کروائیں اور غزلوں اور شعروں میں عورت کا نام استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی تاکہ کسی عورت کو بے توقیر نا کیا جاسکے۔
انہیں نبی کریم ﷺ کی خاص محبت حاصل تھی وہ جماعت صحابہ میں واحد صحابی تھے جو نبی کریم ﷺ کی رائے سے مختلف رائے بھی دیا کرتے تھے پھر بڑے لاڈ اور پیار سے اس پر بضد بھی ہوجایا کرتے تھے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے عمر کی رائے کو قرآن بنا کر نازل فرمایا اور کئی موقعوں پر تو ہوبہو عمر کے الفاظ اللہ نے قرآن بنا دیے۔
وہ ایسے مثالی حکمران تھے کہ جنہوں نے ظلم و بربریت، لاقانونیت اور جنگ و جدل کے دور میں ایسی مثالی فلاحی ریاست قائم کی کہ جس میں قانون کی حکمرانی تھی۔ انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ اقلیتیں مکمل طور پر محفوظ بلکہ ریاست سے وظیفے وصول کرتی تھیں۔ ہر سو خوشحالی تھی۔ غریب پرسکون تھے۔ بھوکے ننگے لوگ ریاست کی اولین ترجیح تھے۔ جانوروں تک کو آج کی ریاستوں میں انسانوں سے زائد حقوق حاصل تھے۔ عدل کا دور دورہ تھا۔ لوگوں کا ریاست پر اطمینان تھا۔ ریاست لوگوں کے جان و مال کی محافظ اور خوشحالی کی ضامن تھی۔ ریاست فرات کے کنارے بھوک سے کتے کے مرجانے پر بھی خود کو جواب دہ سمجھتی تھی۔ ہر مذہب کے لوگوں کو عبادات کی مکمل آزادی تھی۔
انہوں نے جو مثالی محکمے قائم کیے وہ آج کے ترقی یافتہ دور کی تمام ریاستوں کی اساس ہیں۔ گو کہ آج بھی دنیا بھر کا مروجہ ریاستی ڈھانچہ "نظام عمر" کا محتاج ہے۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے کو باقاعدہ ضابطے کے اندر لاکر مختلف محکمے قائم کیے۔ آج بھی تمام ریاستیں انہیں محکموں میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ چل رہی ہیں۔
انہوں نے محکمہ خزانہ قائم کیا جو آج کی جدید ریاستوں کی بھی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ انہوں نے سربراہ ریاست کے سب سے بڑے عہدے کا نام امیرالمومنین پسند کیا جو آج بھی ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ریاستوں میں رائج ہیں کہیں وزیراعظم تو کہیں صدر۔ انہوں نے پٹوار سسٹم قائم کیا۔ نہری نظام وضع کیا۔ جیل خانہ جات کا تصور پیش کیا اور عملی طور پر محکمہ قائم کیا۔ فوج کے لیے چھاؤنیاں بنائیں۔ رات کو گشت کرنا لازم قرار دیا۔ مہمان خانے قائم کروائے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔ اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔ قرآن کو ترتیب دینے کے حضرت ابوبکر صدیق کے بندوبست کو آگے بڑھایا اور مکمل کیا۔ عدالتی نظام کا تصور دیا اور عدالتیں قائم کروائیں۔ قاضی (ججز) مقرر کیے۔ فوجی دفاتر قائم کروائے۔ رقبوں کی پیمائش کے لیے نظام قائم کیا اور پیمائش جاری کی۔
نئے شہر آباد کیے۔ دریا کی پیداوار پر محصول لگایا۔ پولیس کو محکمہ قائم کیا۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ مکہ سے مدینہ تک مسافر خانے بنوائے۔ مکاتب قائم کیے۔ طلاق دینے کا باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا۔ مساجد میں وعظ کا طریقہ کار نافذ کیا۔ تاریخ میں سن ہجری کا آغاز کروایا۔ رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ مردم شماری کروائی۔ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ تجارت کو آزادی دی۔ غیر مسلموں کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے مکمل آزادی دی۔ وقت کا تعین کیا اور جاننے کا طریقہ متعارف کروایا۔ لاوارث بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بطور ریاست تسلیم کی اور نبھائی۔ قیاس کا اصول طے کیا۔ بوڑھے اور بچوں کے لیے وظائف مقرر کیے۔