Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Zoology Ki Jadeed Dunya Ba Muqabla Pakistan

Zoology Ki Jadeed Dunya Ba Muqabla Pakistan

زولوجی کی جدید دنیا بمقابلہ پاکستان‎

زولوجی، یعنی علم الحیوانات، حیاتیات کی ایک اہم شاخ ہے جو جانوروں کی جسمانی ساخت، افعال، جینیاتی خصوصیات، ارتقائی عمل، طرزِ عمل اور ان کے ماحول سے تعلقات کا مطالعہ کرتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ مضمون محض کتابی علم تک محدود نہیں رہا، بلکہ سائنسی، تکنیکی اور ماحولیاتی میدان میں گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ایک جدید زولوجسٹ نہ صرف جانوروں کا مشاہدہ کرتا ہے بلکہ ماحولیات، صحت عامہ، جینیات، ڈیٹا سائنس اور قانون سازی میں بھی فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان میں زولوجی کا حال آج بھی افسوسناک حد تک پسماندہ ہے، جہاں اسے صرف ایک یاد کردہ نصابی مضمون کی طرح سکھایا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں زولوجسٹ آج کے اہم عالمی مسائل جیسے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، زونوٹک بیماریوں (مثلاً کورونا وائرس) کے سدباب اور جینیاتی تحقیق میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید زولوجی میں تحقیق کا انداز تجرباتی، مشاہداتی اور ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، GPS، ڈرون کیمروں، سیٹلائٹ امیجنگ اور ڈیٹا اینالیسز کے ذریعے جنگلی حیات کی نقل و حرکت، تولیدی عادات اور بقا کی حکمت عملیوں کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، بایوانفورمیٹکس، میٹا جینومکس اور ارتقائی جینیات جیسے شعبے زولوجی کے دائرہ کار کو مسلسل وسعت دے رہے ہیں۔ ان سائنسی تحقیقوں کا براہ راست اثر پالیسی سازی، دوا سازی، ماحولیات کے تحفظ اور معاشی استحکام پر پڑتا ہے۔

اس کے برعکس، پاکستان میں زولوجی کی تعلیم عمومی طور پر ایک فرسودہ نصاب، رٹا سسٹم اور محدود فیلڈ ایکسپوژر تک محدود ہے۔ طلبہ کو جانوروں کی اقسام، جسمانی ساخت یا نظامِ جسمیات کو زبانی یاد کرنے پر زور دیا جاتا ہے، جب کہ مشاہداتی تحقیق، فیلڈ ورک یا تجرباتی سرگرمیوں کا تقریباً فقدان ہے۔ لیبارٹریز اکثر ناکارہ یا ناکافی آلات سے لیس ہوتی ہیں اور اساتذہ کی اکثریت خود بھی تحقیق سے جُڑی نہیں ہوتی۔ کئی جامعات میں دہائیوں پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے، جو نہ صرف سائنسی ترقی سے کٹا ہوا ہے بلکہ طلبہ میں تنقیدی و سائنسی سوچ پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

یہ صورتحال صرف ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی چیلنج ہے۔ جب زولوجی جیسے مضامین کو محض امتحان پاس کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے، تو طلبہ تحقیق، تجربہ اور تخلیق سے دور ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم نہ صرف قومی سطح پر تحقیق میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ جنگلی حیات، ماحولیات اور زراعت جیسے اہم شعبوں میں بھی پائیدار ترقی ممکن نہیں رہتی۔ مثلاً پاکستان میں کئی اقسام کے نایاب جانور ناپید ہو رہے ہیں، مگر ان پر کوئی سائنسی ڈیٹا، تحفظ کی منصوبہ بندی، یا ماڈلنگ موجود نہیں۔ اگر ہمارے پاس تربیت یافتہ زولوجسٹ ہوتے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت یافتہ ہوتے، تو ہم اپنی جنگلی حیات اور ماحولیاتی نظام کو بہتر طور پر محفوظ رکھ سکتے۔

زولوجی کی اہمیت قومی ترقی میں بھی بہت زیادہ ہے۔ مثلاً، زونوٹک بیماریوں کی بروقت شناخت اور روک تھام کے لیے زولوجسٹ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ وائرس اور جراثیم کئی بار جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اسی طرح، ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے، قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے اور زرعی نظام کو بہتر بنانے میں بھی زولوجی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پولینیٹرز (جیسے شہد کی مکھیاں)، کیڑے مارنے والے پرندے، یا پانی کو صاف کرنے والے جاندار، سب کے تحفظ کے لیے زولوجیکل تحقیق ضروری ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں زولوجسٹ براہِ راست ماحولیات کی پالیسی سازی، زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی اور صحت عامہ کے نظام میں مشورہ دیتے ہیں۔

پاکستان میں ان تمام امکانات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا تعلیمی رویہ ہے۔ طلبہ کو ریسرچ کے بنیادی اصول نہیں سکھائے جاتے۔ وہ تحقیق کے سوالات (hypotheses) بنانا، تجرباتی ڈیزائن ترتیب دینا، ڈیٹا اکٹھا کرنا اور نتائج کی سائنسی تشریح کرنا نہیں جانتے۔ اس کے بجائے ان کا وقت پرانے نوٹس یاد کرنے، سوالات کی مشق کرنے اور پاسنگ مارکس حاصل کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم زولوجیکل تحقیقی مقالے عالمی جرائد میں شائع ہوتے ہیں اور جو ہوتے بھی ہیں وہ اکثر کم معیار کے یا صرف ڈگری کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک میں زولوجی کو ایک عملی سائنس کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جہاں تھیوری اور پریکٹیکل کا توازن قائم رکھا جاتا ہے۔ وہاں کے طلبہ کو ابتدائی درجے سے ہی تحقیق، فیلڈ ورک، ڈیجیٹل ٹولز اور سائنسی تحریر و اشاعت سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زولوجسٹ عالمی سطح پر سائنسی ترقی، حیاتیاتی تحفظ اور عوامی فلاح میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

اگر پاکستان بھی اپنی تعلیمی پالیسی، نصاب اور تدریسی طریقوں میں اصلاحات لائے، تو زولوجی جیسے مضامین نہ صرف سائنسی ترقی بلکہ قومی بقا میں بھی بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ زولوجی کو صرف ایک مضمون نہ سمجھا جائے بلکہ ایک قومی ضرورت کے طور پر اپنایا جائے۔ جدید تحقیقی طریقوں، سائنسی مہارتوں، بین الاقوامی تعاون اور فیلڈ ورک پر زور دیا جائے۔ اساتذہ کی تربیت، لیبارٹریز کی بہتری اور جدید اصطلاحات و تصورات کا انضمام ضروری ہے تاکہ ہم تحقیق اور علم کی دنیا میں قدم سے قدم ملا سکیں۔

قوموں کی ترقی صرف معیشت یا ہتھیاروں سے نہیں ہوتی، بلکہ علم اور تحقیق سے ہوتی ہے۔ جب ہمارے زولوجسٹ تحقیق کے میدان میں عالمی معیار پر کام کریں گے، تب ہم اپنی قدرتی دولت، ماحولیاتی وسائل اور حیاتیاتی تنوع کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو نہ صرف باوقار بناتا ہے بلکہ پائیدار ترقی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan