Zindagi Ke Saraab Aur Kaifiyaat e Dil
زندگی کے سراب اور کیفیاتِ دل

زندگی محض ایک مسافت نہیں بلکہ ایک گریزپا سراب ہے، جو ہر لمحہ اپنی صورت بدلتا اور راہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ انسان اس کی دُھند میں رقصاں رہتا ہے، کبھی خواہش کے ریگزار میں اور کبھی امید کے بیابان میں۔ یہ مسافت بظاہر سادہ معلوم ہوتی ہے مگر درونِ خانہ ایسے پیچیدہ فلسفے چھپے ہیں جو نہ تو عقل کے ترازو میں تولے جا سکتے ہیں اور نہ ہی الفاظ کی ریشمی گرہ میں باندھے جا سکتے ہیں۔
ہم نے لفظوں کو کیفیتوں کا پیرہن بنایا، مگر کیفیتیں اتنی بسیط اور کثیف نکلیں کہ لفظوں کے دامن چاک ہو گئے۔ دل کے آنگن میں جو اضطراب، گھٹن اور پژمردگی کی مہک ہے، وہ کسی بھی لغت کے مصداق نہیں آ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے الفاظ کے وسیلے سے جو دنیا بنائی، اس میں معنی کی دھڑکن باقی ہے مگر احساس کی سانسیں کہیں کھو گئی ہیں۔
مصائب اور مشکلات کا یہ عالم ہے کہ جیسے کائنات کے ہر گوشے نے انسان کے لیے آزمائش کا سامان کر رکھا ہو۔ حالات ایسے ہیں جیسے صدیوں پرانی بند کُوٹھری میں ہوا کے روزن بند کر دیے گئے ہوں اور سانس لینا بھی جرم ٹھہرا ہو۔ یہ گھٹن محض خارجی نہیں بلکہ داخلی بھی ہے، دل کے اندر ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو کسی فلسفے، کسی نظریے یا کسی وعدے سے پر نہیں ہوتا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان خود سے سوال کرتا ہے: کیا زندگی محض حصول ہے؟ یا محض محرومی؟ کیا یہ رقصِ امید ہے یا ماتمِ حسرت؟ کیا یہ کائنات اپنے اندر کوئی راز رکھتی ہے، یا ہم ہی نے اس کے سینے پر نقوشِ معنی کھود رکھے ہیں؟
زمانہ ایسے دقیق سوالات کے جواب نہیں دیتا، بلکہ انسان کو اُن سوالوں کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے اور انسان اپنی ہی پھیلی ہوئی انگلیوں کے سائے میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ وہ اپنے اشکوں سے اپنے خوابوں کو سیراب کرتا ہے مگر خواب پودوں کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ مصائب کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہر خوشی اپنے اندر ایک چھپا ہوا ماتم رکھتی ہو۔
یہاں زندگی کی حقیقت ایک ایسے آئینے کی مانند لگتی ہے جو ہر نظر کو اپنی ہی تصویر دکھاتا ہے مگر تصویر کے پیچھے کی دراڑیں نہیں دکھاتا۔ ہم خوشی کو چھو کر بھی اس کی گرمی محسوس نہیں کر پاتے اور غم کو بھلا کر بھی اس کا زہر پی جاتے ہیں۔ دل کے زخم بھی عجب ہیں، وقت کی مرہم انہیں بھرنے کے بجائے اور گہرا کر دیتی ہے۔
انسانی دل کے یہ کیفیاتی جہان الفاظ کے لیے نہیں، احساس کے لیے بنے ہیں۔ مگر ہم مجبور ہیں کہ ان پر لفظوں کا پردہ ڈالیں تاکہ اپنے زخموں کو سماجی رسموں کے کپڑے پہنا سکیں۔ محبت، خواب، قربت، جدائی، یہ سب محض نام ہیں۔ ان ناموں کے پیچھے جو کیفیت ہے، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں فلسفے ناکام ہو جاتے ہیں۔ عقل کی سرحد پر آ کر جذبات کی مملکت شروع ہوتی ہے اور وہاں کوئی منطق کارگر نہیں ہوتی۔ دل کی دھڑکنیں منطق کے اصولوں سے نہیں چلتی، وہ اپنی ہی ضرب کے قاعدے رکھتی ہیں۔ انسان جب تک ان کیفیتوں کے اندرون میں اترتا نہیں، اس وقت تک اس کا شعور سطحی رہتا ہے۔
مصائب کی یہ دھند انسان کے وجود کو آہستہ آہستہ کاٹتی ہے۔ ہر امید کا چراغ بجھنے کے بعد ایک نیا اندھیرا جنم لیتا ہے اور یہی اندھیرا رفتہ رفتہ دل کے اندر اپنا قلعہ تعمیر کر لیتا ہے۔ اس قلعے کے برج پر مایوسی کے پرندے بیٹھتے ہیں اور ان کی چونچوں سے خوابوں کے پر کترے جاتے ہیں۔
یہ دنیا اپنے اندر ایک مسلسل مکالمہ رکھتی ہے: امید اور ناامیدی کا، جستجو اور تھکن کا، بغاوت اور تسلیم کا۔ انسان انہی متضاد قوتوں کے بیچ پِستا ہے۔ زندگی کے یہ فلسفے جو ہم نے کتابوں، دانشوروں اور تاریخ سے کشید کیے، وہ محض کاغذی نقوش ہیں۔ اصل فلسفہ تو وہ ہے جو انسان کے خون میں تحلیل ہوتا ہے، اس کے اشکوں سے قطرہ قطرہ گرتا ہے اور اس کے سانسوں میں گھلتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ ایک امتحان ہے اور ہر امتحان ایک نیا زخم۔ ان زخموں کے ساتھ جینا ہی اصل حیات ہے اور شاید یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان اپنے دکھوں سے جمالیات پیدا کرتا ہے، اپنی محرومیوں سے تخلیق جنم دیتا ہے۔ مگر یہ تخلیق بھی دل کی پوری حالت نہیں بتا سکتی، وہ بھی صرف ایک پرچھائیں ہوتی ہے۔
انسان کے اندر جو کیفیت ہے وہ نہ تو لفظوں میں مکمل اُتر سکتی ہے، نہ ہی رنگوں میں اور نہ ہی نغموں میں۔ وہ تو ایک ایسی آہنگ ہے جو خاموشی میں بھی بجتی ہے، ایک ایسا کرب ہے جو مسکراہٹ کے پیچھے چھپتا ہے اور ایک ایسی امید ہے جو سب محرومیوں کے باوجود دل کے کسی کونے میں سانس لیتی رہتی ہے۔
یہ زندگی ایک ایسا دریا ہے جس کے پانی پر معنی کے پتے بہتے ہیں مگر نیچے درد کے بھنور چھپے ہیں۔ ہم ان پتوں کو پکڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور بھنور ہمیں اندر کھینچ لیتے ہیں۔ شاید زندگی کا کمال بھی یہی ہے کہ یہ ہمیں اپنی پوری حقیقت کبھی نہیں دکھاتی، بس ٹوٹے پھوٹے عکس دیتی ہے تاکہ ہم جستجو جاری رکھیں۔
یوں انسان ایک مسلسل ناکامی اور مسلسل کوشش کے بیچ جھولتا ہے۔ مگر اسی جھولنے میں ایک غیرمرئی جمال ہے، ایک پوشیدہ سکون۔ یہ سکون اس لمحے ملتا ہے جب انسان اپنی کیفیت کو لفظوں کے بجائے خاموشی کے سپرد کر دیتا ہے۔ وہاں نہ فلسفہ ہے نہ منطق، بس ایک وسیع خاموشی ہے اور شاید وہی زندگی کا اصل مفہوم ہے۔

