Zero Investment Se Karobar Ka Safar
زیرو انویسٹمنٹ سے کاروبار کا سفر

پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں ایک عجیب سی جمود کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ چائے کے ہوٹلوں سے لے کر یونیورسٹی کی کینٹینز تک، ہر جگہ گفتگو کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے، اچھی نوکری، بہتر تنخواہ اور پرسکون زندگی۔ کوئی بھی نوجوان جب اپنے مستقبل کا نقشہ ذہن میں بناتا ہے تو اس میں ایک بڑا بنگلہ، اچھی گاڑی اور معقول نوکری ضرور شامل ہوتی ہے، لیکن اپنی کمپنی، اپنی برانڈ، یا کسی بڑے کاروبار کا خواب صرف چند فیصد ذہنوں میں پنپتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ یہاں کاروباری سوچ کو اکثر خطرناک مہم جوئی یا غیر حقیقت پسندانہ خیالی پلاؤ سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور مارکیٹ کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں۔ یونیورسٹیاں ڈگریاں تقسیم کرنے میں مصروف ہیں، مگر ان ڈگریوں کے ساتھ وہ عملی مہارتیں (practical skills) نہیں ملتیں جو مارکیٹ میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈگری ہولڈرز کی ایک لمبی قطار بے روزگار کھڑی رہتی ہے۔ کچھ لوگ کوشش کرکے سکلز (skills) بھی سیکھ لیتے ہیں، لیکن اکثر یہ سکلز مارکیٹ ڈیمانڈ (market demand) سے میل نہیں کھاتیں یا ان کے لیے درست پلیٹ فارم مہیا نہیں ہوتا۔
اس سب کے بیچ، موٹیویشنل اسپیکرز کا ایک لشکر سوشل میڈیا پر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ بڑے بڑے ہالز میں، اونچی آواز میں، ہاتھ کے اشارے اور پرجوش جملوں کے ساتھ نوجوانوں کو خواب دکھاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کا اپنا کوئی بڑا کاروبار نہیں ہوتا۔ وہ خود کسی تعلیمی ادارے میں پڑھا رہے ہوتے ہیں، یا کسی تنظیم کے زیرِ سایہ تنخواہ دار ملازم کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسٹیج پر کھڑے ہوکر بزنس کی کامیابی کے سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ اسٹوری ٹیلنگ (storytelling) میں ماہر ضرور ہوتے ہیں، لیکن مارکیٹ ایکسپوژر (market exposure) یا انٹرپرینیورشپ ایکسپیریئنس (entrepreneurship experience) سے عاری ہوتے ہیں۔
دنیا جہاں ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ای کامرس (e-commerce) اور آن لائن بزنس ماڈلز کی دوڑ میں آگے نکل چکی ہے، وہاں ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اب بھی نصابی کتابوں کے گرد گھمایا جاتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو پتا ہی نہیں کہ ڈراپ شپنگ (dropshipping) کیا ہے، ای اسٹور (e-store) کیسے بنتا ہے، یا فری لانسنگ (freelancing) کے ذریعے کس طرح عالمی مارکیٹ سے کمائی کی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی نیا بزنس آئیڈیا ذہن میں آتا بھی ہے، تو یا تو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ دم توڑ دیتا ہے، یا معاشرتی حوصلہ شکنی اسے کچل دیتی ہے۔
میں نے بھی جب پہلی بار ڈراپ شپنگ کے بارے میں سوچا تو یہ احساس ہوا کہ پاکستان میں اس کے لیے کوئی منظم تربیتی ادارہ یا رہنمائی کا نظام موجود نہیں، لیکن دل میں یہ ضد تھی کہ زیرو انویسٹمنٹ (zero investment) کے ساتھ بھی کاروبار کا آغاز ممکن ہے۔ میں نے مختلف کوریئر سروسز (courier services) سے رابطہ کیا، مختلف دکانداروں سے بات کی، ان کے پروڈکٹس کی پرائس لسٹ نکالی اور اپنے آن لائن اسٹور پر انہیں ڈسپلے کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں اصل حقیقت سامنے آئی۔
بیشتر دکانداروں نے تعاون سے انکار کر دیا۔ انہیں لگا کہ میں نیا ہوں، میرا بزنس ماڈل کامیاب نہیں ہوگا، یا شاید ان کے لیے فائدہ کم ہوگا۔ کوریئر سروسز کے چارجز اتنے زیادہ تھے کہ اگر میں کسی چیز کو مارکیٹ ریٹ پر بیچتا تو میرے لیے منافع کا مارجن (profit margin) نہ ہونے کے برابر رہتا۔ یہاں ایک عام کاروباری ذہن شاید ہار مان لیتا، مگر میں نے اپنی حکمتِ عملی بدلی۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایسے وینڈرز (vendors) تلاش کیے جو اپنی مارکیٹنگ بڑھانا چاہتے تھے اور جن کے لیے فری ہوم ڈلیوری (free home delivery) ایک سیل پوائنٹ تھا۔
یہاں قسمت نے ساتھ دیا۔ کچھ ایسے کاروباری لوگوں سے رابطہ ہوا جنہوں نے میری زیرو انویسٹمنٹ حکمتِ عملی کو سمجھا اور بغیر کسی اضافی چارج کے میری مدد کی۔ وہ آرڈرز جو دوسرے گاہکوں تک پانچ چھ دن میں پہنچتے تھے، وہ میرے ذریعے دو تین دن میں پہنچا دیے گئے۔ سب سے بڑھ کر، انہوں نے نہ صرف ڈلیوری چارجز معاف کیے بلکہ جب کسی پروڈکٹ میں خرابی نکلی تو بغیر اضافی خرچ کے ریپلیسمنٹ (replacement) بھی فراہم کی۔
یہ میرا عملی سبق تھا کہ مارکیٹ میں سچائی، اعتماد اور تعلقات (networking) کاروباری سرمایہ ہوتے ہیں اور یہ سرمائے کی کمی کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔ ان تعلقات کی بدولت میں نے چند ہفتوں میں اچھی خاصی سیل (sales) کی اور میرا حوصلہ بڑھ گیا کہ اگر ایک چھوٹے پیمانے پر، زیرو انویسٹمنٹ کے ساتھ ایسا ممکن ہے تو بڑے پیمانے پر کیا کچھ ممکن نہیں۔
لیکن یہ صرف میری کہانی نہیں۔ یہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ہمارے ملک کے 99 فیصد نوجوانوں کے ذہن میں کاروبار کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ نوکری کے خواب میں جکڑے رہتے ہیں۔ یہ سوچ کہ میں اپنی کمپنی بناؤں، دوسروں کو روزگار دوں، یا مارکیٹ میں ایک نیا پروڈکٹ لانچ کروں، ہمارے تعلیمی نصاب اور معاشرتی تربیت کا حصہ ہی نہیں۔ ہم نے کبھی یہ سبق نہیں پڑھا کہ انٹرپرینیورشپ صرف پیسے بنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ معیشت میں ایک فعال کردار ادا کرنے کا نام ہے۔
اگر پاکستان کو معاشی طور پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں نوجوانوں کے ذہن میں یہ بیج بونا ہوگا کہ کاروبار صرف امیروں کا کھیل نہیں، بلکہ صحیح حکمتِ عملی، مارکیٹ ریسرچ (market research) اور کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ (customer relationship management) سے کوئی بھی شخص، چاہے زیرو انویسٹمنٹ سے ہی کیوں نہ ہو، کامیابی کا سفر شروع کر سکتا ہے۔
مارکیٹ کی اصل طاقت اس میں ہے کہ وہ اُن لوگوں کو جگہ دیتی ہے جو نئے آئیڈیاز لاتے ہیں، جو رسک لیتے ہیں اور جو رکاوٹوں کو چیلنج سمجھ کر عبور کرتے ہیں۔ ڈراپ شپنگ جیسا بزنس ماڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے پاس اپنا اسٹاک یا گودام نہ بھی ہو، تب بھی آپ ایک فعال آن لائن کاروبار چلا سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ کو سپلائرز کے ساتھ تعلقات بنانے اور کسٹمرز کا اعتماد جیتنے کا ہنر آتا ہو۔
میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ زیرو انویسٹمنٹ سے کاروبار ممکن ہے، مگر اس کے لیے ذہنی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہمیں نصاب بدلنے، مارکیٹ کی ضروریات کو سمجھنے اور نوجوانوں کو عملی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ تبدیلی نہیں آتی، ہم اسی جمود میں رہیں گے جہاں نوکری کا خواب کاروبار کے خواب کو نگل جاتا ہے۔ مگر جس دن ہم نے سوچا کہ روزگار لینے والے نہیں، روزگار دینے والے بننا ہے، وہ دن پاکستان کی معیشت کا نیا آغاز ہوگا۔

