Zameer Ki Qurbani
ضمیر کی قربانی

کبھی تاریخ کے افق پر ایک ایسا لمحہ ابھرتا ہے جو قرون و اعصار کے پردوں کو چیر کر انسانیت کے ضمیر پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ وہ تھا جب دشتِ کربلا کی سلگتی ریت پر نواسۂ رسولﷺ نے اپنی گردن خم کی اور یزیدیت کی جبینِ رذالت سے نقاب کھینچ لیا۔
حسینؑ کا خروج کسی تخت کی طلب، یا کسی خلافت کی ہوس کا آئینہ دار نہ تھا، بلکہ یہ خروج تھا اس نبوی چراغ کا جو امت کی گُل ہوتی شعور کی قندیلوں کو روشن کرنے نکلا تھا۔ یہ قافلہِ صداقت، ان اندھیاری گلیوں میں داخل ہوا جہاں جبینیں جھکی تھیں، ضمیر مرجھا چکے تھے اور خوف و حرص نے روحوں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
حرؓ بن یزید کی مثال تاریخ میں اس ضمیرِ نادم کی ہے جو ابتدا میں سرکشی کی راہوں پر تھا، مگر جب فطرت نے بیدار کیا تو وہ حسینی سپاہ میں صفِ شہادت کا تاج بن گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دلائل کے دروازے نہیں بلکہ بصیرت کی کھڑکیاں کھلیں اور وہ بھی تھے، جو چہروں پر تقویٰ کی ملمع کاری کیے، زبان پر درود اور دل میں یزیدیت کے منڈیر سجائے بیٹھے تھے۔
صرف پچاس برس! فقط نصف صدی میں وہ امت، جس نے رسولﷺ کے دستِ مبارک سے وضو کے پانی کا شرف پایا تھا، وہی امت نواسۂ رسولﷺ کے خونِ مقدس کو خاکِ کربلا پر بہانے کو روا جانتی رہی۔
کربلا صرف معرکۂ شمشیر و سناں نہ تھا، بلکہ یہ معرکہ تھا عقیدہ و افکار کا، ضمیر و کردار کا اور سب سے بڑھ کر وفاداری و فسق کا۔ وہ مسلمان، جنہوں نے رسولﷺ کی زبانِ حق سے حسینؑ کی شان سنی تھی، وہ جانتے تھے کہ حسینؑ باطل کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ پھر بھی، جب وقتِ شہادت آیا، تو ان کی زبانوں پر خامشی اور دلوں میں لرزاں اطاعت کے سائے تھے۔
یہ خامشی فقط بزدلی نہ تھی، بلکہ یہ روح کی فالج زدگی تھی۔ مال و زر کی لعنت نے ایمان کے طائر کو قفس میں قید کر رکھا تھا اور ظلم کی طلسماتی زنجیروں نے فہم و ادراک کی حریت کو روند ڈالا تھا۔
یزید کے دربار میں وہی "زاہد" بیٹھے تھے جو کل تک محرابوں میں گریہ کرتے اور آج زر و زَر کی قحبہ گری میں مصروف تھے۔ منبر و محراب، عدل و قسط کے بجائے سطوتِ سلطنت کے خادم بن چکے تھے۔
امام حسینؑ نے اپنے خطبات میں فقط نسب کا حوالہ نہ دیا، بلکہ وہ دینِ محمدﷺ کا آئینہ اٹھائے، امت کے چہرے سے نقاب ہٹاتے رہے۔ ان کی زبان پر نبوی حکمت، قرآنی حرارت اور علوی فصاحت کا امتزاج تھا۔ ان کا ایک ایک جملہ نہ فقط منطق کا مرقع تھا بلکہ ایک آئینی فردِ جرم بھی، جو ظلم کے ایوانوں کو لرزا دینے کے لیے کافی تھا۔
کیا یہ وہی امت تھی جسے رسولﷺ نے "خیر امت" کہا تھا؟ کیا یہی وہ لوگ تھے جو بدر و اُحد میں شانہ بشانہ لڑے تھے؟
پھر کیوں اُن کے دلوں میں حسینؑ کے لیے کوئی ارتعاش نہ جاگا؟
ابنِ زیاد کا دربار، وہ مقتل تھا جہاں صرف جسم قتل نہ ہوئے بلکہ ضمیر ذبح ہوئے۔ شام کے بازاروں میں جب زینبؑ نے فصاحت کا مینار بلند کیا تو صرف ایک خطبہ نہ تھا، بلکہ پوری امت کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ ان کے الفاظ میں وہ للکار تھی جو ظالم کی رگوں میں خون کو جما دے اور مظلوم کے دل میں بغاوت کا چراغ روشن کر دے۔
شریعت کا جوہر، حسینؑ کے کردار میں مجسم تھا۔ وہ "امر بالمعروف" کا چلتا پھرتا مینار تھے اور "نہی عن المنکر" کا تلواری اظہار۔ ان کی قربانی نے دین کی اساس کو بچا لیا، ورنہ یزید کے دستِ تغلب میں دین کا قالب رہ جاتا اور حقیقت کی روح فنا ہو جاتی۔
یزید کی سلطنت، فساد کی پوشاک تھی۔ اس کی خلافت، فسق کی تسبیح اور اس کی اطاعت، ایمان کے ریشمیں پردے میں لپٹی منافقت۔ حسینؑ نے اس پردے کو چاک کیا اور امت کو آئینہ دکھایا۔
آج، صدیاں گزر چکی ہیں، مگر حسینؑ کی صدا اب بھی وقت کے ہر یزید کے خلاف ایک غیرتمند للکار ہے۔ ان کی پیاس، فقط پانی کی نہ تھی، بلکہ وہ وفا کی پیاس تھی، صداقت کی، فہم کی، حریت کی۔
اور آج، جب ہم ان کے لیے آنسو بہاتے ہیں، تو خود سے یہ سوال بھی کریں کہ کیا ہم ان مجرموں میں سے تو نہیں جو حسینؑ کو جانتے تھے، مگر ابنِ زیاد کے دربار میں خاموش بیٹھے رہے؟ کیا ہمارے دلوں پر بھی سکہ زر کی مہر ثبت ہے؟ کیا ہماری زبانیں بھی حق گوئی سے گریزاں ہیں؟ کیا ہمارے محراب بھی یزید کے سائے میں آباد ہیں؟
حسینؑ کا قافلہ آج بھی رواں دواں ہے، ہر دور میں، ہر زمانے میں۔
کربلا صرف ایک مقام نہیں، بلکہ ہر وقت کی ایک کسوٹی ہے، جہاں کردار آزمائے جاتے ہیں اور ضمیر تراشے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم حسینؑ کے خیمے میں ہیں یا یزید کے دربار میں۔

