Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Tanqeed Nahi Banti

Tanqeed Nahi Banti

تنقید نہیں بنتی

میرے خیالوں میں لیلا نہیں آتی، میری سوچ میری لیلا بن چکی ہے۔ ہر مجنوں کی روش رہی ہے کہ وہ اپنی معشوق کے لیے کوہ بے سکون کھودتا ہے۔ میں وہ مجنوں ہوں جو پہاڑ کے دامن میں بے سکون کھودنے کے بجائے جنگل میں جھونپٹری بنانے میں لگا ہوں۔ کوئی صاحب ہوش و دانا صفت مجھہ پہ تنقید تو کرے اور سمجھاۓ میں نے آخر خونخوار درندہ کے بیچوں بیچ رہنا کا فیصلہ کیوں کیا؟ ارے میں نے آئین عشاق توڑا ہے مجھ غدار کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ ارے وہ زبانوں کہاں گئیں جو ناگن کی طرح ڈھستی ہے؟

تنقید تو بنتی ہے!

میں نے دیکھا ہے سب چاہتے ہیں نصیحت کریں، تنقید کریں پر اصلاح کوئی نہیں چاہتا! وہ کیسے؟ وہ ایسے وہ نصیحت کرے گا خود کو معزز سمجھ کر اور مخاطب کو کائنات کا پلید ترین انسان گردانے گا۔ ظاہر ہے سر عام پلید کرنا اصلاح تو نہیں ایسا کرنے کے بعد مخاطب جتنا بھی چھوٹا ہو ٹکا سا جواب تو دے گا۔ کم از کم یہ تو بولے گا قبلہ اپنے گھر کی خبر لیں۔ بھلے یہ بزرگ کو گالی لگے اور بزرگ کے تن بدن میں آگ لگے، اور بال کی کھال نکالتا رہے گا نکالنے دیجئے۔

یہاں تنقید کہیں بنتی ہی نہیں!

میں نے مشاہدہ کیا ہے میرے کام پہ آج تک کسی نے تنقید نہیں کی، آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں کوئی وحی لکھتا ہوں! نہیں بھائی میں تو وہ باغی ہوں جس نے تاریخ، سائنس، ادب، آرٹ، کلچر، سیاست، صحافت اور نہیں معلوم کتنے شعبوں کا جنازہ نکالا ہے اور تابوت کاندھوں پہ لے کے پھر رہا ہوں، مجال ہے کسی نے تنقید کی ہو۔ کیونکہ معاشرے میں رہنے والے بڑے مکار ہیں تم ناچ کے دکھاو یا رو کے دکھاو یہ چند الفاظ دہراتے ہیں مثلا۔

Marvelous, well done, excellent, every good, superb, fantastic, or zbr10

وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھیے! آپ سے مخلص انسان ہمیشہ آپ کے کام پہ تنقید کرتا ہے منافقت نہیں۔ یہ دعا ہے خدا سے کسی کمین سے پالانہ پڑے۔ ویسے یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے اور مجھے تیوری چڑھانا تو بالکل نہیں آتا البتہ غلط بات سننے کے بعد بے تکی سنانے کا دل چاہتا ہے پر میں دل کی باتوں میں نہیں آتا۔

یہاں کمین گاہوں میں معذرت زبان پھسل گئی۔ مکین گاہوں میں یہاں معزز لوگ رہتے ہیں۔ تحائف کے آستانوں میں کمینے رہتے ہیں، شرافت کے ایوانوں میں لوگ دست وگریباں ہوتے ہیں۔ مگر سنا ہے مکین گاہوں کے شریف بھی کمین گاہوں کی طرح کلیہ میں گڑ پھوڑتے ہیں۔ یہ چیز سب کے مشاہدہ میں ہے کہ شریف بھی تو مٹھی گرم کرتا ہے تو پھر امراء پہ تنقید کیوں کریں؟ وہ تو ویسے نوے کے پھیرنے پڑھ جاتے ہیں۔

یہاں بھی تنقید بالکل بھی نہیں بنتی!

صاحب منصوبوں پہ تنقید نا بھئی، ہم کیوں فضول میں اپنی روزی روٹی بند کریں ان کا پیسہ ہے ان کی مرضی وہ رقاصاؤں کو ایوانون میں رقص کرائیں یا پھر صدارتی ایوارڈ سے نوازے۔ ہمیں کیا؟ اس بات پہ بھی حسن زن رکھو کہ بوتل میں شہد تھا تو شہد تھا۔ اب بھی قبر میں پاو لٹکائے بیٹھے ہیں۔ تنقید نہیں۔ شہد میں شفا ہے خیر۔

کوئی بیمار ہو تو شفا کی دعا کرے اللہ جلد اٹھالیں ان کے وجود سے تمام بلائیں، آپ کو تنقید کی سوجی ہے ان کی آنتیں پچھلے کہیں عرصے سے قل اللہ پڑھ رہی ہیں۔

معذرت!

ناؤ۔ کشتی۔ سفینہ۔ ایک چیز کے تین الگ الگ نام ہیں تینوں ایک جیسے ناؤ کہو، کشتی کہو یا سفینہ۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti