Taleem Ke Mazar Par Karobar Ki Azaan
تعلیم کے مزار پر کاروبار کی اذان

شہرِ کراچی کی سڑکوں پر پھیلے نجی اسکولوں کے بلند و بالا در و دیوار باہر سے دیکھنے میں کسی علمی قلعے کا گمان دیتے ہیں، مگر جونہی اندر قدم رکھتے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے علم کے لبادے میں کسی تجارتی منڈی کا سامنا ہوگیا ہو۔ یہاں کتابیں ترازو میں تولی جاتی ہیں، استاد سوداگر کی صورت میں کھڑا ہوتا ہے اور طالب علم سکے کی مانند گردش میں آتا ہے۔ یہ درسگاہیں نہیں، علم کی نعشوں کے سرد خانے ہیں، جہاں فہم و فراست کے جنازے خاموشی سے دفن کیے جاتے ہیں۔
ایسے اسکولوں میں تعلیم ایک مقدس عمل نہیں بلکہ منافع بخش مالِ تجارت ہے، جہاں ذہنوں کو کندن بنانے کے بجائے، انہیں سستی مشینوں کی طرح چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں نہ کسی تدریسی آلہ کار کی اہمیت ہے، نہ ہی مضمون کی تخصیص کا کوئی لحاظ۔ اگر آپ فزکس میں ماسٹرز ہیں تو آپ کو کیمسٹری بھی پڑھانی ہے، گویا آئن سٹائن سے کہا جا رہا ہو کہ کیمیا گری بھی سکھاؤ۔ اگر کوئی بایولوجی کا ماہر ہے، تو اسے فزکس اور میتھمیٹکس بھی یوں پڑھانی پڑتی ہے جیسے کوئی مصور سے کہا جائے کہ موسیقی بھی بجا دو۔
علم کا یہ گلا گھونٹنے والا نظام تدریس کے اصولوں سے عاری ہے۔ یہاں "علمِ تخصص" (specialization) کو انٹر کے ایک سبق میں دفن کر دیا گیا ہے۔ ایک مضمون میں مہارت، جسے سائنسی دنیا میں "ڈیپ تھرو آؤٹ" سمجھا جاتا ہے، اسے محض عمومی مطالعے سے بدل دیا گیا ہے۔ گویا ایک ماہر امراضِ قلب کو دماغ کی جراحی سونپی جا رہی ہو۔
ایسی درسگاہوں میں "سائیکوپداگوگی" (تعلیمی نفسیات) کا کوئی وجود نہیں۔ استاد، بچوں کی ذہنی سطح، عُمرانی تفہیم اور تجزیاتی استعداد کو سمجھے بغیر فقط لکیر پیٹنے کا عمل دہراتا ہے۔ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کو جب سائنسی تصورات جیسے "خلیہ"، "ٹیشو"، "اعضا" اور "نظامِ انہضام" صرف یاد کروایا جاتا ہے مگر سمجھایا نہیں جاتا، تو ان کے اذہان صرف "میموری کارڈ" بن کر رہ جاتے ہیں، سوچنے والی مشینیں نہیں۔
آکسفورڈ پریس کی چمکتی دمکتی کتابیں، جن میں انسانی جسم، اس کے نظام، خلیاتی ڈھانچے، غذائی عمل (nutrition) اور ماحول (ecosystem) کا نقشہ پوری فنی مہارت سے کھینچا گیا ہے، ان کے صفحات ان بچوں کے ذہن میں یوں سے غائب ہو جاتے ہیں جیسے ریاضی کی مساوات سے صفر کا ہندسہ۔ ان کتابوں میں بیان کردہ "سیل سائیکل"، "فوٹوسنتھیسس" اور "موڈ آف نیوٹریشن" جیسے موضوعات محض صفحات کی زینت بنے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، جب یہی بچے نویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو "پلانٹ" اور "اینمل سیل" میں فرق تک نہیں کر پاتے اور نظامِ انہضام ان کے لیے اجنبی دیس بن جاتا ہے۔
تعلیم کا یہ بے سمت جہاز، جو رٹنے اور دوہرانے کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، سائنسی اصولوں جیسے "کنسٹرکٹیوسٹ تھیوری" (Constructivist Theory) کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے، جو کہتا ہے کہ علم فرد کے اندر تعمیر کیا جاتا ہے، نہ کہ باہر سے انڈیلا جاتا ہے۔ مگر یہاں علم کا بہاؤ نہایت میکانکی، غیر تخلیقی اور یک طرفہ ہے، جو بچے کے ذہن کو محض "ریسیپینٹ" بنا کر رکھ دیتا ہے۔
ادھر جب ہم اخلاقی اور تربیتی پہلو دیکھتے ہیں تو وہ بھی کسی سیماب صفت گہرے اندھیرے میں چھپ چکا ہے۔ جتنا اسکول فیس لیتا ہے، اتنا ہی اس کے طلبہ میں اخلاقی بگاڑ، زبان درازی اور استاد بیزاری دیکھی جاتی ہے۔ استاد، جو کبھی روحانی باپ ہوا کرتا تھا، اب محض ایک یوزر فرینڈلی روبوٹ ہے، جسے کسی بھی وقت مالکان کی انگلی پر گھمایا جا سکتا ہے۔ یہاں کسٹمر ہمیشہ درست ہوتا ہے، چاہے وہ استاد کی عزت کو پامال کرے یا نظمِ جماعت کو تہہ و بالا۔
ان اسکولوں کے مالکان کی عقل پر وہی دھواں چھایا ہوا ہے جو کسی کارخانے کی مشین سے اٹھتا ہے، بس مال نکلتا رہے، معیار کی پرواہ نہ ہو۔ استاد کو اس کے مضمون کی مطابقت، تجربے اور جذباتی وابستگی کے بجائے اس کے "ملٹی ٹاسکنگ" ہنر سے تولا جاتا ہے۔ علم، جسے کبھی "نور" کہا جاتا تھا، اب صرف ایک عددی پیداوار بن گیا ہے، زیادہ نمبر، زیادہ اشتہار، زیادہ داخلے۔
جب تعلیم کی بنیاد کاروبار ہو، جب علم کے قلعے نوٹوں کی بندرگاہ بن جائیں، جب سوچنے والے ذہنوں کو "سٹوریج ڈیوائسز" میں بدل دیا جائے، تو پھر ایسی قومیں صرف ڈگری یافتہ جاہل پیدا کرتی ہیں۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم تدریس کو دوبارہ اس کی اصل پہچان دیں: ایک "تحقیقی و تخلیقی عمل"، ایک "ذہنی افزائش کا فن" اور ایک "انسان سازی کا ہنر"۔ مضمون کی تخصیص، استاد کی تربیت، سائنسی اصطلاحات کی تفہیم اور اخلاقی کردار کی تشکیل کو اگر ہم نے نصابِ تعلیم کا حصہ نہ بنایا تو یہ دکان نما درسگاہیں صرف گریجویٹ لاشیں پیدا کرتی رہیں گی، جو سوچ نہیں سکتیں، سمجھ نہیں سکتیں اور تبدیلی نہیں لا سکتیں۔
یاد رکھیے، جب علم تجارت بن جائے، تو قلم تلوار نہیں بنتا، صرف رسید بن کر رہ جاتا ہے۔

