Taleem Ka Asal Sarmaya: Hunar, Waqt Aur Soch
تعلیم کا اصل سرمایہ: ہنر، وقت اور سوچ

پاکستانی تعلیمی نظام پر تنقید کرنا آسان ہے، اصلاحات کی گفتگو کرنا بھی نسبتاً سہل ہے، لیکن جب ہم اس عمل کے اندرونی ڈھانچے کو دیکھتے ہیں تو حقیقت کے کئی رخ سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف نصاب کی فرسودگی، اساتذہ کی کم مزدوری، تحقیقی ماحول کی کمی اور ادارہ جاتی خرابیاں دکھائی دیتی ہیں، تو دوسری طرف ایک اور پہلو بھی ہے، وہ پہلو جو اکثر ہماری نظر سے اوجھل رہتا ہے: خود طلباء کی کوتاہیاں، ان کی غیر سنجیدگی، غیر ارتقائی سوچ اور سہل پسندی کا وہ رجحان جو انہیں منزل سے پہلے ہی تھکا دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تعلیمی نظام بیمار ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسی نظام کے اندر کچھ ایسے طلباء بھی پیدا ہوتے ہیں جو بغیر سفارش، بغیر سہولتوں اور بغیر ماحول کے بھی اپنے لیے کامیابی کا راستہ بناتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی کیوں نہیں کر پاتے؟ اور جواب اس قدر سادہ نہیں، مگر پوشیدہ بھی نہیں۔
سب سے پہلے ہمیں اس غلط فہمی کو چیلنج کرنا ہوگا کہ ڈگری کامیابی کی ضمانت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ڈگری کو ایک مقدس نسخے کی طرح سمجھ لیا گیا ہے، جیسے کاغذ کا ایک ٹکڑا نوکری، دولت، عزت اور مستقبل کا دروازہ کھول دے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈگری ایک دستاویز ہے، قابلیت نہیں، ایک ثبوت ہے، مہارت نہیں، ایک شناخت ہے، صلاحیت نہیں۔ طالب علم جب صرف ڈگری کے پیچھے بھاگتا ہے اور مہارت کو نظرانداز کرتا ہے تو وہ اپنے مستقبل کی بنیاد کھوکھلی رکھتا ہے۔ اس کھوکھلے پن کے اندر سب سے بڑا خلا اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے، جہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ مارکیٹ کو کاغذ نہیں، ہنر چاہیے، الفاظ نہیں، کارکردگی چاہیے، گریڈ نہیں، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت چاہیے۔
ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمارے طلباء کی اکثریت اصل علم سے زیادہ نقل شدہ علم کی طرف مائل ہے۔ وہ فاسٹ پیپرز، ریڈی میڈ نوٹس، شارٹ کٹس اور آؤٹ لائنز کے سہارے امتحانات پاس کر لیتے ہیں، لیکن ان کے ذہن میں علم کی وہ مضبوط بنیاد قائم نہیں ہوتی جو زندگی کے بڑے فیصلوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ جو طلباء 100 میں سے 90 نمبر لے آتے ہیں، ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جنہیں بنیادی تصورات تک درست معلوم نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم ان کے لیے محض ایک مرحلہ ہے، ایک بوجھ ہے، ایک فارم ہے، ایک ٹو ڈو لسٹ کا آئٹم ہے، جو مکمل ہونا چاہیے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تعلیم دراصل ذہن سازی کا عمل ہے، سوچ بنانے کا راستہ ہے اور شعور بیدار کرنے کا ذریعہ ہے۔
طالب علم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے وقت کو محض گزرنے کے لیے نہیں بلکہ سنورنے کے لیے استعمال نہ کرے۔ ہمارے نوجوان صبح یونیورسٹی جاتے ہیں، چند لیکچرز سنتے ہیں، کینٹین میں وقت گزارتے ہیں، شام کو واپس آ جاتے ہیں اور پھر موبائل، سوشل میڈیا، بے کار گفتگو اور غیر ضروری مصروفیات میں گُم ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ چھ گھنٹے یونیورسٹی پڑھنے کے لیے کافی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیکھنے کا عمل لیکچر ہال سے باہر شروع ہوتا ہے، اندر نہیں۔ اگر وہ یونیورسٹی کے بعد دن کے مزید چھ گھنٹے اپنے ہنر کی مشق، اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور اپنے مستقبل کی بنیاد رکھنے میں صرف کریں تو ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ علم محض کتاب سے نہیں آتا، علم پریکٹس سے آتا ہے، مشاہدے سے آتا ہے، تجربے سے آتا ہے اور سب سے بڑھ کر مستقل مزاجی سے آتا ہے۔
معاشرتی اور سائنسی اصول یہ کہتے ہیں کہ جو ذہن حرکت میں رہتا ہے، وہ ارتقا کی طرف بڑھتا ہے اور جو ذہن جمود میں رہتا ہے، وہ زوال کی طرف کھنچتا ہے۔ ایک طالب علم اگر ہر روز اپنے ذہن کو نئی معلومات، نئے تجربات اور نئے چیلنجز کے سامنے رکھے تو اس کا ذہن کشادگی اختیار کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ سارا دن صرف اسی رٹے ہوئے ماحول میں رہے، جہاں نوٹس تیار کرنا ہی تعلیم سمجھا جاتا ہے، تو اس کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔ ارتقا کسی ایک فیلڈ سے نہیں آتا، یہ کثیر الجہتی مشق سے آتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اگر صرف میڈیکل پڑھے اور کسی اور علم سے واقف نہ ہو تو وہ مکمل ڈاکٹر نہیں بنتا۔ اسی طرح ایک بائیولوجسٹ، انجینئر، سوشیالوجسٹ یا آرٹسٹ بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ دنیا کی وسیع تعبیرات کو نہ سمجھے۔
نوجوانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ وقت کو دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ وقت کو گزرتا ہوا دیکھتے ہیں، پکڑتے نہیں، اسے استعمال کرتے نہیں، اسے ضائع کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جوانی بہت لمبی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جوانی کا ہر دن ایک بنیاد ہے، آج کا دن جتنا مضبوط ہوگا، کل کی عمارت اتنی ہی پائیدار ہوگی۔ وقت کو تقسیم نہ کرنا سب سے بڑی خرابی ہے۔ اگر ایک طالب علم دن کے بارہ گھنٹے کو تین حصوں میں تقسیم کرے، چھ گھنٹے پڑھنے کے لیے، تین گھنٹے ہنر سیکھنے کے لیے اور تین گھنٹے مشق، مطالعہ، یا کسی انکم جنریٹ کرنے والے کام کے لیے، تو وہ چند سال کے اندر اپنی آمدن کو نہ صرف دگنا بلکہ تین سے پانچ گنا تک بڑھا سکتا ہے۔ دنیا میں ملٹی پل انکم ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جو مختلف ہنر سیکھتے ہیں، نہ کہ انہیں جو صرف ڈگری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
سائنسی اصول یہ کہتا ہے کہ ہر توانائی اگر درست جگہ لگا دی جائے تو نتیجہ ضرور پیدا کرتی ہے۔ انسانی ذہن بھی توانائی ہے، انسانی وقت بھی توانائی ہے، انسانی مہارت بھی توانائی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے طلباء ان توانائیوں کو بے مصرف سرگرمیوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ چھ گھنٹے یونیورسٹی پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ کام ختم، حالانکہ کام اُس وقت شروع ہوتا ہے۔ اگر وہ اگلے چھ گھنٹے کسی ہنر، جیسے کمپیوٹر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، فری لانسنگ، گرافک ڈیزائن، ریسرچ ورک، آرٹ، لینگویج لرننگ، یا لیب سکلز، میں لگا دیں، تو وہ نہ صرف اپنے تعلیمی میدان میں مضبوط ہوں گے بلکہ روزگار میں بھی دوسروں سے آگے ہوں گے۔ دنیا ایک گلوبل مارکیٹ بن چکی ہے، جہاں ہنر کی قیمت ڈگری سے زیادہ ہے۔
معاشرتی ارتقا بھی یہی کہتا ہے کہ جو شخص اپنی بقا اور ترقی کے لیے متحرک نہ ہو، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ سماج کا نظام اس وقت تک مضبوط نہیں ہوتا جب تک اس کے نوجوان مضبوط نہ ہوں۔ نوجوان اس وقت مضبوط نہیں ہوتے جب تک ان کا ذہن مضبوط نہ ہو۔ ذہن اس وقت مضبوط نہیں ہوتا جب تک وہ علم اور ہنر دونوں سے آراستہ نہ ہو۔ اس لیے ہر طالب علم کو اپنی زندگی کو ایک ایسی مشین بنانا ہوگا جس کے پرزے مضبوط ہوں، جس میں تیل بھرپور ہو اور جس کے گئیر وقت کے ساتھ گھومتے رہیں۔ جمود سب سے بڑی بیماری ہے اور حرکت سب سے بڑا علاج۔
آخر میں، ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء خود کو صرف شکایت کرنے والا طبقہ نہ بنائیں۔ اگر وہ واقعی معاشرے کو بدلنے کا خواب رکھتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے اندر کی کمزوریوں کو بدلنا ہوگا۔ انہیں اپنی علمی بھوک کو بیدار کرنا ہوگا، اپنی فکری اڑان کو وسیع کرنا ہوگا اور سیکھنے کی ایسی پیاس پیدا کرنی ہوگی جو کبھی بجھ نہ سکے۔ ڈگری ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے، لیکن مستقبل ان کے ہاتھ میں ایک فیصلہ ہے۔ کہ وہ اس کاغذ کو اپنی منزل بناتے ہیں، یا اسے اپنی منزل کا آغاز سمجھتے ہیں۔
اگر نوجوان اپنے وقت، ذہن اور توانائی کو صحیح جگہ استعمال کرنا سیکھ لیں، تو نہ تعلیمی نظام انہیں روک سکتا ہے، نہ معاشرتی رکاوٹیں، نہ وسائل کی کمی۔ ایک روشن مستقبل اُن کا منتظر ہے جو خود کو بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

