Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Sodagran e Jannat

Sodagran e Jannat

سوداگرانِ جنت

زندگی کو اگر کسی مجازی پردے میں بیان کیا جائے تو وہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو ریگزارِ حیات میں وحشت ناک دوڑ لگا رہا ہے۔ اس کی باگ تھامنے والا انسان ہے مگر اس کی گرفت کمزور، ہاتھ کانپتے ہیں اور آنکھوں میں خواب اور خوف دونوں لرزتے ہیں۔ کبھی یہ گھوڑا سبزہ زار امیدوں میں لے جاتا ہے، کبھی کانٹوں بھرے دشت میں گرا دیتا ہے۔ موت اس کا آخری پڑاؤ ہے، ایک ایسی وادی جہاں ہر سوار کو اترنا ہے۔ لیکن حیرت انگیز یہ ہے کہ سب کو اس سفر کا یقین ہے مگر سب اس کی تیاری سے غافل ہیں، جیسے اندھیری رات میں چراغ بجھا کر راستہ طے کرنے کی کوشش ہو۔

ہم سب جنت کے متمنی ہیں مگر ہماری تمناؤں کی بنیاد محض لفظوں کے قلعے اور خودفریبی کی کمین گاہیں ہیں۔ دیکھو، ایک طبیب ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ہر دھڑکتی جان کو بچا لینے کے سبب جنت اس کی میراث ہے۔ مزدور اپنے پسینے کو جنت کی کنجی جانتا ہے۔ واعظ اپنی خطابت کے سحر میں گرفتار ہے اور کہتا ہے کہ میں انسانوں کو نجات دلاتا ہوں لہٰذا جنت کا وارث ہوں۔ غریب اپنی بھوک اور ننگ کو سندِ جواز بنا کر سوچتا ہے کہ یہ مفلسی کل کو اس کے لیے جنت کا صلہ بنے گی۔ گدی نشین اپنے خانقاہی غرور میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے مریدوں سمیت جنت کے دروازے کھول لے گا۔ حکمران اپنی نذرانہ بخششوں کو پروانۂ جنت گردانتا ہے اور عورت، جو تحائف کو اپنی کمین گاہ میں رکھ کر سمجھتی ہے کہ جنت کا سودہ کر رہی ہے، گویا وہ ریشمی کپڑوں اور مصنوعی زیورات کے بدلے ابدی راحت خرید رہی ہے۔ میں بھی، قلم سنبھال کر چند اخلاقی سطر لکھتا ہوں اور یہ مغالطہ پالتا ہوں کہ جنت میری جاگیر ہے، جیسے الفاظ ہی نجات کی زنجیر بن سکتے ہیں۔

یہ سب مناظر انسانی خودفریبی کے آئینے ہیں۔ منطق دروازے پر دستک دیتی ہے اور سوال کرتی ہے: کیا یہ سب محض الفاظ اور دکھاوے کے محل ہیں یا واقعی اعمال کی بنیاد پر قائم قلعے ہیں؟ فلسفہ کہتا ہے کہ نیکی صرف زبان کا تسبیحی ورد نہیں بلکہ وہ مسلسل ریاضت ہے جو زمین پر عدل اور خیر کی تصویر کھینچتی ہے۔ ارسطو کے نزدیک فضائل عادت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر واعظ اپنی زبان کو جنت کا پل سمجھتا ہے مگر اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھتا تو وہ فضیلت کے ترازو میں خالی ہے۔ کانٹ کے نزدیک نیکی وہ ہے جو ذاتی مفاد کے بغیر محض فرض کی خاطر انجام دی جائے۔ اگر حکمران یا عورت یا میں خود، سب اپنے اپنے دعووں میں محض ظاہری تسکین ڈھونڈتے ہیں تو یہ نیکی نہیں بلکہ خود فریبی ہے۔

سماج کے اندر یہ تضاد اور بھی گہرا ہے۔ غریب اپنی بھوک کو سندِ نجات سمجھتا ہے، مزدور اپنی مشقت کو، واعظ اپنی زبان کو، گدا نشین اپنی دستار کو اور حکمران اپنی سخاوت کو۔ عورت تحائف کے ڈھیر کو جنت کی تجارت گردانتی ہے اور میں چند اخلاقی سطور کو اپنی نجات کا حوالہ مان لیتا ہوں۔ یہ سب اس امر کی علامت ہیں کہ معاشرہ انصاف سے خالی ہے۔ جب عدل غائب ہو، جب وسائل چند ہاتھوں میں قید ہو جائیں، تو لوگ جھوٹے دعوے اور فریب کی ڈھالیں تراشتے ہیں تاکہ اپنے اندر کے زخموں پر پردہ ڈال سکیں۔ یہ سب ریت کے محلات ہیں، جو پہلی ہی آندھی میں بکھر جاتے ہیں۔

موت کا تصور وجودی فلسفے کا سب سے بنیادی نکتہ ہے۔ تم نے کہا تھا کہ مرنا سب کو ہے مگر سب بے خبر ہیں۔ یہی بے خبری انسان کو اس کی حقیقت سے دور رکھتی ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ انسان پہلے وجود رکھتا ہے، پھر اپنی حقیقت تراشتا ہے۔ مگر وہ حقیقت تراشنے کا ہنر صرف عمل سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ لفظوں اور تحائف سے۔ موت کے دروازے پر ہر فریب ٹوٹ جاتا ہے۔

اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہی کھیل جاری ہے۔ حکمران اپنی سخاوت کو جنت کا حوالہ مانتا ہے مگر وہ سخاوت اکثر طاقت کے دوام کے لیے ہوتی ہے۔ عورت تحائف کو روحانی تجارت سمجھتی ہے، واعظ زبان کے طلسم پر تکیہ کرتا ہے اور میں چند الفاظ کو ابدیت کا زادِ راہ گمان کرتا ہوں۔ یہ سب اسی وقت عیاں ہوتا ہے جب فلسفۂ سیاست اور منطقِ اخلاق ان پر روشنی ڈالتی ہے۔

انسانی نفس کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ خود کو دھوکے میں مبتلا رکھتا ہے۔ مزدور اپنی محنت کو سندِ نجات مان کر سکون پاتا ہے، واعظ اپنی زبان کو، گدی نشین اپنی خانقاہ کو، غریب اپنی بھوک کو، حکمران اپنی طاقت کو، عورت اپنے تحائف کو اور میں اپنے الفاظ کو۔ نفسیات کہتی ہے کہ جب تک انسان اپنی حقیقت کو نہیں پہچانتا اور اپنی خامیوں کا سامنا نہیں کرتا، وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ خودفریبی وہ آئینہ ہے جس میں انسان خود کو بلند دکھاتا ہے مگر عکس حقیقت میں بگڑا ہوا ہوتا ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ بڑے دعوے اور بلند و بالا کلمات کبھی جنت کا راستہ نہیں بنتے۔ یہ راستہ چھوٹے مگر مسلسل اعمال سے بنتا ہے۔ روزانہ کی سچائی، عدل، سخاوت، محنت اور علم کی جستجو وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی دیتے ہیں۔ جنت محض امید نہیں بلکہ ایک عملی سفر ہے۔ یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان ایک جھوٹ سے باز آتا ہے، ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، ایک مظلوم کا سہارا بنتا ہے، ایک نفس کی خواہش کو دباتا ہے۔ یہ چھوٹے اعمال وہ موتی ہیں جو پرو کر جنت کا ہار بناتے ہیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ عقل اور محبت کا امتزاج ہی انسان کو نجات کی راہ دکھاتا ہے۔ عقیدہ جب منطق کے ساتھ ملتا ہے تو اندھی تقلید سے پاک ہو جاتا ہے اور عمل جب محبت کے ساتھ جڑتا ہے تو ریا سے محفوظ رہتا ہے۔ تمہارا استعارہ، زندگی کا سرکش گھوڑا، یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم سب اس پر سوار ہیں، مگر قابو صرف وہی پا سکتا ہے جو لگام کو سچائی، انصاف اور نیکی کے ہاتھ سے تھامے۔ جنت کے دعوے کرنے والے تو بے شمار ہیں مگر جنت کی تیاری کرنے والے بہت کم۔ اصل سوال یہی ہے: اگر جنت تمہاری سب سے بڑی آرزو ہے تو آج تم نے ایسا کون سا عمل کیا ہے جو کل تمہارے دعوے کو حقیقت بنا سکے؟ یہی سوال اگر ہر دل میں گونجے تو یہ سرکش گھوڑا قابو میں آ جائے اور یہ زندگی فنا کے اندھیروں سے نکل کر معنویت کی روشنی میں ڈھل جائے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari