Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Soch Ka Jamood

Soch Ka Jamood

سوچ کا جمود

انسان اپنی اصل میں ایک مسافر ہے، وقت کا، تجربے کا اور سب سے بڑھ کر شعور اور ذہن کے سفر کا۔ اس کے اندر مسلسل ارتقائی عمل جاری رہتا ہے جو بچپن کے سادگی بھرے دنوں سے شروع ہو کر شباب کی بے چینی، جوانی کی جستجو، پختگی کی ٹھوس بصیرت اور بڑھاپے کی گہری حکمت تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ ارتقائی سفر تبھی مکمل ہوتا ہے جب معاشرہ، تعلیم، خاندان، ماحول اور ادارے اس سفر کی حمایت کریں۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ تمام سہارے یا تو ناپید ہیں یا بری طرح بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہاں ذہنوں کو پروان چڑھانے کے بجائے گھٹا دیا جاتا ہے، جذبات کے اظہار کو قوت سمجھنے کے بجائے کمزوری کہا جاتا ہے، تخلیق کو آزاد چھوڑنے کے بجائے اس کے پروں پر قدغن لگا دی جاتی ہے اور نوجوان کو اپنی سمت تلاش کرنے دینے کے بجائے روایات کے بندھنوں میں باندھ دیا جاتا ہے۔

یہ نفسیاتی و سماجی حقیقت ہے کہ پندرہ سے تیس برس کی عمر انسانی ذہن کے لیے سب سے زیادہ تشکیل دینے والی عمر ہے۔ ژاں پیازه جیسے عظیم ماہرِ نفسیات نے انسانی ذہن کے ارتقائی مراحل کو بیان کیا اور واضح کیا کہ زندگی کے ہر مرحلے میں ذہن خاص صلاحیتیں پیدا کرتا ہے اور اگر ماحول انہیں پنپنے نہ دے تو شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔ پاکستانی نوجوان انہی ادھورے ذہنوں کی مثال بن چکے ہیں۔ وہ پندرہ سے بیس برس کے درمیان شناخت کی تلاش، جذباتی ابھار، ہارمونل تبدیلیاں، معاشرتی خوف اور گھریلو دباؤ میں الجھے رہتے ہیں اور بیس سے تیس برس تک پہنچتے پہنچتے ان کا ذہن جستجو، سوال، بغاوت اور تلاشِ ذات کے ایسے راستوں پر جاتا ہے جسے معاشرہ ناپسند کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جسے ابنِ خلدون نے "نفس کی تشکیل کا مرحلہ" کہا۔ مگر یہاں اسے تشکیل دینے کے بجائے توڑ دیا جاتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ کے مطابق زندگی کے اس دور میں انسان کے ذہن پر تین قوتیں، خواہشیں، خوف اور سماجی اقدار، مسلسل اثرانداز ہوتی ہیں۔ مگر پاکستانی ماحول میں خواہش کو گناہ بنا دیا گیا ہے، خوف کو تربیت کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے اور اقدار کو سمجھانے کے بجائے ٹھونس دیا جاتا ہے۔ یوں نوجوان نہ آزاد سوچ پاتا ہے، نہ مکمل پابند۔ وہ نہ پوری طرح خواب دیکھ پاتا ہے اور نہ حقیقی معنوں میں اپنی داخلی آواز سن پاتا ہے۔

تعلیم، جو انسان کی ذہنی تعمیر کا سب سے بڑا ستون ہے، پاکستان میں عملاً ذہنی و فکری قید میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جان ڈیوئی نے تعلیم کو "زندگی کی تشکیل" کہا تھا مگر آج پاکستان میں تعلیم اکثر زندگی کا ضیاع محسوس ہوتی ہے۔ رٹّا، دباؤ، غیر تخلیقی ماحول، گھٹن زدہ تدریسی رویے، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور محدود نصاب نوجوان کے ذہن کے دریچوں کو کھولنے کے بجائے بند کر دیتے ہیں۔ یہاں سوال پوچھنا بدتمیزی، سوچ کا اظہار گستاخی، دلیل دینا بے ادبی اور جستجو کرنا غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔

پاکستانی یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ کی کمی نہیں جن کی اپنی سوچ روایتی، محدود اور وقت کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔ ایک استاد اگر خود معاشی آزادی پر یقین نہ رکھتا ہو، اگر اپنے طلبہ کو خطرہ مول لینے کا حوصلہ نہ دے، اگر تخلیقی آزادی کی قدر نہ کرے تو وہ اپنے شاگردوں کو روشنی کا راستہ کیسے دکھائے گا؟ ایک استاد نے یہ کہہ کر کہ "عملی زندگی میں جا کر یہ سوچ مر جائے گی" دراصل ایک پوری نسل کی سوچ کا قتل کر دیا۔ ارسطو نے کہا تھا کہ "تعلیم کا مقصد صرف ذہن بھرنا نہیں، سوچ کو کھولنا ہے"، مگر یہاں سوچ کو کھولنے کے بجائے ذہن کو بند کیا جاتا ہے۔

معاشی انحصار پاکستانی نوجوان کا سب سے بڑا ذہنی قید خانہ ہے۔ جو نوجوان بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی آزادی نہ پائے، جس کے خواب گھر، رشتہ دار، معاشرہ اور تعلیم مسلسل دبائیں، وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی خوف، مایوسی، بے یقینی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ البرٹ بندورا نے معاشی خود مختاری کو انسانی خود اعتمادی کی بنیادی اینٹ قرار دیا، مگر پاکستان میں نوجوان کو نہ اپنی کمائی کا شعور دیا جاتا ہے، نہ بچت اور منصوبہ بندی کی تربیت، نہ سرمایہ کاری کا تصور اور نہ ہی خطرہ مول لینے کی تربیت۔ اس لیے جیسے ہی عملی زندگی کا دباؤ آتا ہے، ذہن بکھرنے لگتا ہے۔

انسانی ذہن کی ارتقائی منازل، جذباتی ابھار، جستجو، فیصلہ سازی، پختگی اور حکمت، تبھی مکمل ہوتی ہیں جب ماحول تعاون کرے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں جذبات کو دبا دیا جاتا ہے، جستجو کو بے وقوفی کہا جاتا ہے، فیصلوں کو بے ادبی، پختگی کو بغاوت اور حکمت کو بوڑھوں کی بڑ۔ نتیجہ یہ کہ نوجوان کا ذہنی سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ "جو ریاست اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت نہ کرے، وہ اپنی تباہی کا بیج خود بو دیتی ہے" اور آج پاکستان اس قول کی جیتی جاگتی مثال بن چکا ہے۔ ابنِ خلدون نے بے روح تعلیم کو ذہنی مفلوجی کا سبب کہا تھا اور یہاں کی تعلیم بے روح ہے، لہٰذا ذہن بھی اپاہج ہیں۔ اقبال نے نوجوان کو شاہین کہا تھا، مگر شاہین کی پرواز شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے پروں پر سماج کی زنجیریں باندھ دی جاتی ہیں۔

پاکستانی معاشرہ فکر اور سوچ کے اعتبار سے ایک قید خانہ بن چکا ہے، جہاں والدین کی غیر ضروری پابندیاں، مذہبی شدت پسندی، روایت پرستی، خوف اور بے جا غیرت نوجوان کو سوچنے سے پہلے ہی جھٹک دیتی ہیں۔ یہ سماجی دباؤ ذہنی ارتقا کو روکتا ہے اور نسل در نسل ذہنی بانجھ پن منتقل ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سائنسدان کم، ادیب کم، مفکر کم اور تخلیق کار کم پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستانی نوجوان کے خواب ایک ترتیب کے ساتھ دفن ہوتے ہیں: پہلا قتل والدین کے ہاتھوں، دوسرا قتل اسکول کے ہاتھوں، تیسرا قتل کالج کی پسماندگی کے ہاتھوں، چوتھا قتل یونیورسٹی کے بے مقصد ماحول سے، پانچواں قتل معاشی مجبوری سے اور آخری قتل سماجی طنز سے۔ خوابوں کا جنازہ اٹھائے بغیر یہاں کوئی بڑی زندگی ممکن نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ راستہ کیا ہے؟ حل کہاں ہے؟ نوجوان اپنی آزادی کیسے بحال کرے؟ معاشرہ کیسے بدلے؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف وہ قومیں آگے بڑھتی ہیں جن کے نوجوان اپنی فکری اور ذہنی آزادی کا حق مانگیں۔ نوجوان کو چاہیے کہ اپنی خود اعتمادی دوبارہ حاصل کرے، اپنی تخلیقی قوت کو زندہ کرے، اپنی ذہنی آزادی کا مطالبہ کرے، اپنے معاشی مستقبل کی بنیاد خود رکھے اور سب سے بڑھ کر سوچنے کی ہمت پیدا کرے۔ معاشرہ اس وقت بدلے گا جب تعلیم امتحان نہیں، تعمیر بنے گی، جب استاد نگرانی نہیں، رہنمائی کرے گا، جب نوجوان اندھی تقلید نہیں، روشن سوچ اختیار کرے گا۔

پاکستان اگر نوجوان کے ذہنی، نفسیاتی اور سماجی سفر کو پہچان لے، اس کی جستجو کو دبانے کے بجائے آزادی دے، اس کے فیصلوں کو رد کرنے کے بجائے قبول کرے اور اس کی تخلیق کو پابندی کے بجائے پرواز دے، تو نہ صرف فرد مضبوط ہوگا بلکہ قوم بھی پسماندگی کے اندھیروں سے نکل کر ترقی اور روشنی کی طرف بڑھ سکے گی۔ نوجوان کا ذہن ایک مسافر ہے، روشنی کا مسافر اور یہ سفر تبھی مکمل ہوگا جب اسے چلنے، بڑھنے، سوچنے، سوال کرنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی دی جائے۔ یہی آزادی کسی قوم کے مستقبل کا چراغ بنتی ہے اور یہی چراغ پاکستانی نوجوان کے ہاتھ میں تب تک نہیں جل سکتا جب تک اس کے اردگرد کی زنجیریں ٹوٹ نہ جائیں۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali