Riyasat e Khwab Faroshan
ریاستِ خواب فروشاں

اس دیس کی کہانی گویا کسی لغتِ شکستہ کا ورق ہے، جہاں الفاظ تو بہت ہیں مگر معانی ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔ وہاں تین اصطلاحی قبیلے عوام کے کندھوں پر سوار ہیں: ترازو فروشوں کا کارواں، چمکتی کرسیوں کے مسافر اور چوکیدارِ محل کے کٹھ پتلی ساز۔
ترازو فروش وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں عدل کا پیمانہ ہے مگر پلڑوں میں توازن کے بجائے طاقتور کی مرضی کا بوجھ رکھا ہوتا ہے۔ ان کا ترازو کبھی سیدھا نہیں جھکتا، کبھی طاقتور کی طرف جھک جاتا ہے اور کبھی چوکیدار کی چھڑی کے اشارے پر۔ ان کے فیصلے کاغذی نہیں بلکہ کرنسی نما ہوتے ہیں، جن کی قیمت بازار میں طے کی جاتی ہے۔ عوام انہیں قاضی کہہ کر پکارتی ہے مگر دراصل یہ فیصلہ فروش ہیں جن کی عدالتیں انصاف کے نہیں بلکہ سودے کے دربار ہیں۔
دوسرا قافلہ ہے چمکتی کرسیوں کے مسافروں کا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے وعدے ہوا میں تحلیل ہونے والے بلبلے ہیں۔ یہ انتخابی موسم میں خواب فروش بن جاتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی خواب خراش۔ ان کی سیاست ایک بازار ہے اور عوام اس بازار کی بولی لگانے والی مخلوق۔ یہ لوگ خود کو قائد کہتے ہیں مگر اصل میں یہ اقتدار کے تاجر ہیں۔ کبھی مغربی صرافوں کے در پر، کبھی مشرقی سامراج کی چوکھٹ پر اور اکثر چوکیدارِ محل کی سرپرستی میں۔ ان کا ہر قدم دراصل تجوری کی سمت بڑھتا ہے اور ان کی کرسی عوام کی لاشوں پر کھڑی ہوتی ہے۔
تیسرا اور سب سے پرشکوہ طبقہ ہے چوکیدارِ محل کے کٹھ پتلی سازوں کا۔ یہ وہ محافظ ہیں جنہیں سرحدوں کے سپاہی ہونا تھا مگر یہ تخت کے معمار بن بیٹھے۔ یہ دن میں وردی کے تقدس کی اوٹ لیتے اور رات کو تخت کے سودے کرتے۔ ان کا اصل ہنر یہ ہے کہ یہ دھاگوں سے کٹھ پتلیاں نچاتے ہیں۔ کبھی کرسی فروشوں کو نچواتے ہیں، کبھی ترازو فروشوں کے قلم کو ہلاتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ہر جرم کا خنجر تو انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر الزام کسی اور کے گلے میں لٹک جاتا ہے۔ یہ خود کو نجات دہندہ کہتے ہیں مگر دراصل یہ نقشہ شکن معمار ہیں، جو ہر تعمیر کو اجاڑ کر اسے اپنی فتح کا نام دیتے ہیں۔
یہ تینوں قبیلے مل کر وہ کھیل کھیلتے رہے جسے دیس کی قسمت کہا گیا۔ عوام کو خواب بیچے گئے، نصاب میں جھوٹ بُنا گیا، تاریخ کو طلسمی آئینے میں چھپا دیا گیا۔ بزرگ نسلیں اس آئینے کو حقیقت سمجھ بیٹھیں، وہ ہر قصہ مانتی رہیں، ہر معرکہ فاتحانہ سنتی رہیں۔ ان کے لیے چوکیدار خدا کا سایہ تھا، ترازو فروش عدل کا پیکر تھے اور کرسی فروش عوام کے خادم۔
لیکن جب زمانے نے کالی اسکرین کا سورج طلوع کیا، تب پردے پھٹنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب سوشل میڈیا کے آئینے نے وہ سب دکھا دیا جو نصاب نے چھپایا تھا۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ جن فتوحات کو کتابوں نے گایا وہ دراصل شکست کے معاہدے تھے۔ جن ہیروز کو زندہ باد کہا گیا وہ پسِ پردہ سوداگر نکلے۔ جن مقدس جنگوں کو ایمان کی طاقت کہا گیا وہ اصل میں معیشت کے کاروبار تھے۔
یقین کا یہ زہر جب ٹوٹا تو سوال جنم لینے لگے اور اس دیس میں سوال کرنا سب سے بڑا جرم تھا۔ جو لب کھلے وہ غداری کا استعارہ بن گئے، جو آنکھ اٹھے وہ بغاوت کا عنوان ٹھہرے، جو قدم بڑھے وہ قید و سلاسل کی ضرب المثل بن گئے۔ نوجوانوں کو باغی کہا گیا، ان کی دولت لوٹی گئی، ان کے گھر اجاڑے گئے، کچھ کو جلاوطن کیا گیا اور کچھ کو خاموشی کے قبرستان میں اتارا گیا۔
عوام کی اکثریت مگر خود بھی اصطلاحی بیماری کا شکار تھی۔ وہ ہجوم نما امت تھے، جو زبان سے تو کلمہ گو تھے مگر دلوں تک کلمہ نہیں پہنچا تھا۔ ان کے بازاروں میں حلال و حرام ایک ہی ترازو میں بکتا، ان کے گھروں میں جھوٹ کو ہنر کہا جاتا، رشوت کو کامیابی سمجھا جاتا، بددیانتی کو عقل مندی مانا جاتا۔ وہ ہر ظلم کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے مگر اگلے ہی لمحے ظالم کے دربار میں سلامی دینے جا پہنچتے۔
یوں دیس کا نقشہ تو باقی رہا مگر حقیقت میں وہ محض ایک لاشِ زندہ تھا۔ وہاں بارش ہو تو مسئلہ، بارش نہ ہو تو مسئلہ۔ وہاں سڑکیں حادثے کی فیکٹریاں، اسپتال مرنے والوں کے گودام، اسکول جہالت کے کھیت، عدالتیں سودے کے اڈے۔ وہاں ہر چراغ بجھا ہوا، ہر دروازہ بند، ہر زبان مقفل۔
اس دیس کے باسی خوابوں میں جیتے رہے۔ چوکیدار اپنی وردی کو آسمانی پرچم بنا کر لہراتا رہا، ترازو فروش اپنے قلم کو تقدیس کا خنجر بناتا رہا، کرسی فروش اپنے وعدوں کو مصلحت کی چادر میں لپیٹتے رہے۔ عوام ان سب کو جانتے بوجھتے بھی تالی بجاتے رہے۔ وہ دراصل اصطلاحی اندھے تھے، جنہیں روشنی دکھائی دیتی تھی مگر وہ اسے پہچان نہ سکتے تھے۔
یہی اس دیس کی کہانی ہے، ایک ایسا استعارہ جو عبرت کی کتاب کے حاشیے پر لکھا گیا۔ ایک ایسا دیس جو بظاہر موجود ہے مگر حقیقت میں محض اصطلاحی قبرستان ہے، جہاں کردار تو زندہ ہیں مگر معانی مر چکے ہیں۔

