Rattaism
رٹّا ازم

کہا جاتا ہے کہ علم روشنی ہے، مگر یہ کون سی روشنی ہے جو ہمارے بچوں کی آنکھیں چندھیا دیتی ہے، مگر ان کے دماغ کو منور نہیں کرتی؟ یہ کیسا علم ہے جس کے دفاتر تو ہیں، مگر دلوں میں نہیں؟ جن اسکولوں میں لیبارٹریوں کے دروازے صرف تصویروں میں کھلتے ہیں، وہاں بچے سائنس نہیں پڑھتے، وہ صرف "مارک شیٹ" کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
نصاب کی کتابوں میں سائنس ایک زندہ وجود ہے: آواز کی لہریں، روشنی کی کرنیں، خلیے کی ساخت، ارتقاء کے پیچیدہ موڑ۔ مگر جب یہی کتابیں استاد کے ہاتھوں میں آتی ہیں تو وہ اس وجود کو دفن کر دیتے ہیں۔ بس یاد کرو! لکھ لو! نمبر لے آؤ!
یہاں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ایسے پڑھایا جاتا ہے جیسے کسی حلوائی کی دکان پر گلاب جامن کی ریسیپی سکھائی جا رہی ہو۔ نیوٹن کا سیب زمین پر نہیں گرتا، وہ بچوں کے ذہنوں پر گرتا ہے اور شعور کو کچل دیتا ہے۔
گریڈ ون سے لے کر گریڈ ایٹ تک کا تعلیمی سفر ایک ایسی اندھی سرنگ ہے جہاں نہ روشنی ہے نہ ہوا۔ بچے جو کچھ پڑھتے ہیں، وہ سمجھنے کے لیے نہیں، اگزام میں "ٹک مارک" لینے کے لیے ہوتا ہے۔ انہیں نہ جاننے کی اجازت ہے، نہ پوچھنے کی۔
یہاں سائنس نہیں، رٹّے کی حکومت ہے۔ وہ رٹّا جو دماغ کی کسی کھڑکی کو نہیں کھولتا، بلکہ ذہن پر تالے ڈال دیتا ہے۔ وہ رٹّا جو یادداشت کو تو تھوڑی دیر جگاتا ہے، لیکن فہم کو مستقل سلا دیتا ہے۔
ہر کلاس روم ایک ایسی پٹاری ہے، جس میں استاد جادوگر نہیں، منتر یاد کروانے والا پیر ہے۔ "یہ لکھ لو، یہ رکھ لو، یہ سوال آ سکتا ہے"، سوال آ سکتا ہے، فہم آنا ضروری نہیں۔
یہاں "کیا، کیوں اور کیسے؟" کے سوالات نہیں، صرف "کب، کہاں اور کتنے نمبر کے لیے؟" کی گونج ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں سائنس کا مطلب ہے: "ڈیفینیشن یاد کرو، فارمولے لکھو اور ٹیسٹ میں لکھ دو"۔ یہاں نہ خوردبین ہے، نہ دوربین۔ نہ ٹیوب لائٹ کے پیچھے فزکس ہے، نہ دل کی دھڑکن کے پیچھے بیالوجی۔ بچے "برقی رو" پڑھتے ہیں، مگر ان کے اندر سوچ کی کوئی کرن نہیں دوڑتی۔
اور یہ سب کچھ اتفاقاً نہیں ہوا۔ یہ سسٹم کی خامی نہیں، بلکہ اس کی پلاننگ ہے۔ وہ تعلیم جو شعور دے، وہ خطرناک ہوتی ہے۔ وہ طالبعلم جو سوال کرے، وہ بغاوت کرتا ہے اور ہم نے تعلیم کو بغاوت سے بچانے کے لیے اسے ایک قبر میں دفن کر دیا ہے، جس پر مارک شیٹ کی تختی لگا دی گئی ہے۔
اساتذہ کے پاس الفاظ ہیں، مگر مفہوم نہیں۔ ان کے ہاں تدریس ہے، مگر تربیت نہیں۔ ان کے پاس بلیک بورڈ ہے، مگر بصیرت کا کال ہے۔ والدین کے پاس فیسیں دینے کا جنون ہے، مگر بچوں کے ذہنی ارتقاء کی طلب نہیں۔
ہم نے اسکولوں کو کارخانے بنا دیا ہے، جہاں بچے "گریڈ" کی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں۔ وہ گریڈ A+ ہو یا C، وہ بس ایک مہر ہے، جو علم کے بدن پر نہیں، اس کی لاش پر ثبت کی جاتی ہے۔
سائنس، جس کی بنیاد سوال، مشاہدہ اور تجربہ ہے، یہاں اسے صرف رٹّے اور یادداشت کے ڈنڈے سے ہانکا جاتا ہے۔ تجربہ گاہ صرف ایک ہال کا نام ہے، جہاں بچوں کو کبھی کیمیکل کی خوشبو نہیں سونگھنے دی جاتی۔
سائنس فکشن تو دور، یہاں سائنسی حقیقت بھی بچوں کو خواب لگتی ہے۔
نتیجہ؟ ہم تحقیق میں دنیا سے صدیوں پیچھے ہیں۔ ہمارے سائنسدان ریسرچ جرنلز میں نہیں، واٹس ایپ فارورڈز میں نظر آتے ہیں۔ ہماری ایجادات گلوبل نہیں، مقامی عقائد کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔
جب بنیاد ہی میں زنگ ہو، تو عمارت کبھی فلک بوس نہیں ہوتی۔
ہمیں تبدیلی کہاں سے شروع کرنی ہے؟
اس کلاس روم سے جہاں بچہ ہاتھ اٹھا کر سوال کرے اور استاد ناراض نہ ہو۔ اس نصاب سے جس میں الفاظ سے زیادہ تجربہ ہو۔ اس سسٹم سے جو رٹّے کو ترک کرکے تحقیق کو اپنائے۔
ہمارے بچوں کو گریڈ نہیں، فہم چاہیے۔ انہیں مارک شیٹ نہیں، بصیرت چاہیے۔ انہیں رٹّا نہیں، تحقیق چاہیے۔
ورنہ سائنس کی لاش پر ہم ہر سال نئی مارک شیٹ کی چادر چڑھاتے رہیں گے۔
اور رٹّے کی فاتحہ ہر سال نئے ناموں سے پڑھتے رہیں گے۔

