Qurbani Rasm Nahi, Roohani Safar Ka Naam Hai
قربانی رسم نہیں، روحانی سفر کا نام ہے

قربانی۔۔ یہ کوئی محض جانور کی گردن پر چھری پھیرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ انا کی گردن پر چلنے والی چھری ہے۔ یہ خواہشاتِ نفس کی گود میں پلنے والے بت کو پاش پاش کرنے کا اعلان ہے۔ قربانی وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی روح کا عکس دیکھتا ہے، وہ روح جو مٹی کے لباس میں لپٹی، خالق کی رضا کے سانچے میں ڈھلنے کو بے قرار ہوتی ہے۔
ابراہیمؑ کی کہانی کوئی اساطیری قصہ نہیں، یہ عشق و ایثار کی ایک ایسی زندہ جاوید داستان ہے جس میں ایک باپ، اپنے بڑھاپے کا سہارا، اپنے نورِ نظر کو، کسی ذاتی خواہش، خواب یا وراثت کے لیے نہیں، بلکہ صرف اور صرف "رضائے الٰہی" کی دہلیز پر نچھاور کرنے چل پڑتا ہے اور بیٹا؟ وہ بھی کوئی معمولی کردار نہیں، وہ تو فرمانبرداری کا وہ مینار ہے جو زمانے کے طوفانوں کو للکارتا ہے۔
باپ نے چھری تیز کی، بیٹے نے گردن جھکائی اور عرش نے صدا دی: "اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، ہم نیکوکاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں"۔ (سورہ الصفات، آیت 105)
یہ چھری کسی گلے کی رگ کو نہیں، خودی کی رگِ جاں کو کاٹنے چلی تھی۔ ابراہیمیؑ قربانی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سال میں ایک دن جانور ذبح کریں، گوشت کے تھیلے بنائیں، فریزر بھر دیں اور شام کو سیلفی لے کر فیس بک پر "الحمد للہ قربانی مکمل" پوسٹ کر دیں۔ نہیں صاحب! اگر یہی فلسفہ ہوتا تو قربانی کا نام "قورمہ" یا "قیمہ" رکھ دیا جاتا۔
آج کا مسلمان قربانی کے تہوار کو شکم پرستی کا فیسٹیول بنا چکا ہے۔ جانوروں کے میلے، سوشل میڈیا کے شو اور گوشت کی تقسیم میں تصاویر کی تقویٰ۔ حالانکہ اللہ فرماتا ہے:
"نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے"۔ (سورہ الحج، آیت 37)
کیا خوب کہا کسی نے کہ: "قربانی کا گوشت بانٹنا آسان ہے، لیکن انا کا گوشت کاٹنا مشکل"۔
ابراہیمؑ کی سنت اپنانا چاہتے ہو؟ تو پہلا جانور جسے ذبح کرنا ہے وہ تمہارا نفس ہے۔ وہ نفس جو صبح کی نماز میں سستی پیدا کرتا ہے، وہ نفس جو سچ کہنے سے روکتا ہے، جو حسد، غرور، تعصب اور منافقت کی خوراک سے پلا بڑھا ہے۔ اگر وہی نفس قربان نہ کیا، تو باقی سب رسومات محض نمائشی قافلے ہیں۔
قربانی کا اصل فلسفہ تو تقرب الی اللہ ہے۔ یہ تو قربتِ خداوندی کا وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے اپنی خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ حضرت نوحؑ نے قوم کی نافرمانی کا طوفان سہا، یوسفؑ نے قید کی کوٹھری میں جبر کے سائے دیکھے، یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں توبہ کا چراغ جلایا، داؤدؑ نے بیماری میں صبر کے موتی پروئے اور ابراہیمؑ؟ انہوں نے باپ اور نبی ہونے کے باوجود، اپنے بیٹے کو قربانی کے لیے لٹا دیا۔
تو ہم کس زُمرے کے بندے ہیں؟ جو بکرا بھی خریدیں تو "سب سے بڑا، سب سے مہنگا، سب سے بھاری" کی فہرست میں شمار ہو اور پھر فریزر کے سرد خانے میں اسے دفن کرکے خود شکم کا قبرستان بنا لیں۔ غریب ہمسایہ صرف جانور کے بولنے کی آواز سنتا ہے، لیکن گوشت کی خوشبو اس کی دہلیز کو چھو تک نہیں پاتی۔
کیسا عجب مذاق ہے کہ ہم جانور ذبح کرتے ہیں، مگر دل میں حسد، آنکھ میں حرص، زبان پر جھوٹ اور دل میں انا ذبح نہیں کرتے!
محترم قارئین! قربانی ایک درس ہے، ایثار کا، فقر کا، اخلاص کا اور سب سے بڑھ کر نفس کی گردن پر چلنے والی چھری کا۔ اگر ہم لاکھوں خرچ کریں، بکروں کے جھمکے اور بیلوں کی ٹرافیاں لیں، لیکن کسی غریب کی ہانڈی میں گوشت نہ جا سکے، تو وہ قربانی فیسٹیول آف گوشت تو ہو سکتی ہے، فی سبیل اللہ قربانی نہیں۔
یاد رکھیں! خدا quantity نہیں دیکھتا، وہ quality of sincerity دیکھتا ہے۔ وہ "کیا دیا" سے زیادہ "کیوں دیا" کو تولتا ہے اور اگر نیت میں کھوٹ ہو تو لاکھوں کے جانور بھی قابل قبول نہیں ہوتے۔
آئیں! اس عیدِ قرباں پر صرف ایک جانور نہ کاٹیں، اندر کے دس شیطانوں کو بھی ذبح کریں۔ جھوٹ کے گلے پر چھری رکھیں، ریاکاری کو سولی چڑھائیں، نفرت کو قبر میں اتاریں اور اخلاص کو زندہ کریں۔
تب جا کے کہیں آپ کی قربانی، ابراہیمیؑ قربانی کے قافلے میں شامل ہو پائے گی۔

