Monday, 24 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Pakistani Taleemi Nizam

Pakistani Taleemi Nizam

پاکستانی تعلیمی نظام

علم، وہ روشنی جو دل و دماغ کے اندھیروں کو چیر کر عقل کی مشعل فروزاں کرتی ہے، مگر جب یہی روشنی مصنوعی چراغوں میں مقید کر دی جائے، تو بصیرت کے دریچے بند اور فکری پرواز زنجیروں میں جھکڑی جاتی ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام اسی فکری اسیری کا نوحہ بن چکا ہے، جہاں شعور کی روشنی کو رٹّے کی سیاہ رات میں دفن کر دیا گیا ہے۔ یہاں علم، سوال کی بجائے جواب کی محتاجی میں جکڑ دیا گیا ہے اور تدبر و تفکر کی جگہ محض الفاظ کی جگالی نے لے لی ہے۔ یہاں کا طالب علم، نہ سوچ سکتا ہے، نہ پرکھ سکتا ہے اور نہ ہی نئے زاویے سے کسی مسئلے کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کا ذہن ایک جامد ڈبے میں قید کر دیا جاتا ہے، جہاں صرف وہی معلومات داخل کی جا سکتی ہیں جو نصاب میں درج ہیں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انہیں من و عن دہرا دیا جائے، وگرنہ قابلیت کی مہر ثبت نہ ہو سکے گی۔

یہاں بچہ جب پہلی جماعت میں قدم رکھتا ہے، تو تخلیقی صلاحیتوں کی بجائے حافظے کی صلاحیت کو پرکھا جاتا ہے۔ "اچھے طالب علم" کی پہچان یہی ہے کہ وہ استاد کے لکھے گئے الفاظ کو جوں کا توں دہرائے۔ یہ سلسلہ پرائمری سے مڈل اور مڈل سے سیکنڈری تک بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ انٹرمیڈیٹ اور یونیورسٹی کی دہلیز پر بھی یہی روایت برقرار رہتی ہے۔ یہاں ذہانت کا پیمانہ یہ نہیں کہ کوئی طالب علم کتنی گہرائی میں جا کر کسی مسئلے کو سمجھ سکتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی تیزی اور مہارت سے الفاظ کو ازبر کر سکتا ہے۔ یہاں حافظے کی چمک کو فکری روشنی سمجھ لیا گیا ہے اور سوال اٹھانے کو گناہ کبیرہ۔

یہاں کے تعلیمی ادارے کارخانوں کی مانند ہیں، جہاں مشینی انداز میں طلبہ کو "پروڈکٹس" کی طرح ڈھالا جاتا ہے۔ ان پروڈکٹس کی کوالٹی کا معیار وہ پرسنٹیج ہے جو ایک بند کمرے میں تین گھنٹوں کے اندر طے کی جاتی ہے۔ جو طالب علم اس کسوٹی پر پورا اتر جائے، وہ "قابل" کہلاتا ہے اور جو نہیں، وہ "نااہل" کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یوں تخلیقی ذہن رکھنے والے طلبہ، جو روایتی انداز میں سوچنے کے بجائے چیزوں کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس نظام کی چکی میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی جگہ نہیں، کیونکہ یہ وہ پرندے ہیں جو قفس میں رہنے کے عادی نہیں اور اس قفس کو تسلیم نہ کرنے کی سزا، انہیں "ناکامی" کی صورت میں دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی ادارے صرف "ڈگری یافتہ" افراد پیدا کر رہے ہیں، "تعلیم یافتہ" نہیں۔ یہاں ڈاکٹر، انجینئر اور ایم فل و پی ایچ ڈی ہولڈرز تو ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان میں سے بیشتر نہ تنقیدی سوچ رکھتے ہیں، نہ تحقیق کی صلاحیت، نہ تخلیقی فکر اور نہ ہی مسائل کو گہرائی سے سمجھنے کا شعور۔ یہاں تحقیق کا مطلب، دوسروں کے کام کو کاپی کرکے چند نئے الفاظ کے ساتھ پیش کرنا ہے اور مقالہ نویسی محض ایک رسمی کارروائی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں "ریسرچ" کا مطلب مقالے کے صفحات کی تعداد بڑھانے تک محدود ہو چکا ہے، نہ کہ علم کے نئے دروازے کھولنا۔

اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا موازنہ جدید دنیا کے تعلیمی ماڈلز سے کریں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہم کتنی گہری کھائی میں گر چکے ہیں۔ جدید تعلیمی نظام میں بچے کو سوال کرنے، تحقیق کرنے اور نئے زاویے سے سوچنے کی ترغیب دی جاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں اسے ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جدید دنیا میں طالب علم کو ایک جستجو کرنے والا ذہن عطا کیا جاتا ہے، جبکہ یہاں اس کے ذہن پر ایک ایسی مہر لگا دی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے تقلید کے شکنجے میں قید ہو کر رہ جائے۔

ہمارا تعلیمی نظام ایک ایسی عمارت بن چکا ہے، جس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور جس کی دیواروں میں جمود کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ یہاں تدریس کا عمل ایک رسمی تقریب بن چکا ہے، جہاں استاد کا کام محض لیکچر دینا اور طالب علم کا کام اسے یاد کرنا ہے۔ یہاں امتحانات علم کا امتحان نہیں، حافظے کا امتحان ہوتے ہیں۔ یہاں تخلیقی اذہان کی کوئی گنجائش نہیں اور جو طالب علم اس روایت کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے، اسے "ناکام"، "بے کار" اور "نامعقول" کے القابات سے نواز دیا جاتا ہے۔

یہ ایک فکری قتلِ عام ہے، جہاں ذہانت کا خون کیا جا رہا ہے اور قابلیت کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ یہاں ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جو اپنے مسائل کا حل خود نکالنے کی بجائے دوسروں کے بتائے گئے "حل" کو حرفِ آخر ماننے پر مجبور ہے۔ یہاں سوال کرنا گستاخی اور تحقیق کرنا غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہاں استاد ایک ڈکٹیٹر اور طالب علم ایک مطیع سپاہی کی مانند ہے، جسے صرف حکم ماننا سکھایا جاتا ہے، سوچنا نہیں۔

یہ ایک ایسی تعلیمی دنیا ہے، جہاں اندھیرے کو روشنی سمجھ لیا گیا ہے اور روشنی کو گناہ۔ جہاں جامد الفاظ کی تسبیح کو تعلیم کا نام دیا جا رہا ہے اور تخلیقی پرواز کو بغاوت۔ اگر ہم نے اس جمود کو نہ توڑا اور اسی تقلیدی روش کو جاری رکھا، تو شاید آنے والی نسلیں ہمارے علم کی کتابوں کو نہیں، ہماری جہالت کی داستانوں کو پڑھ کر ہم پر افسوس کریں گی۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Nazr e Karam Kaise Ho

By Aamir Mehmood