Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Pakistan Ki Zohrana Diplomacy

Pakistan Ki Zohrana Diplomacy

پاکستان کی "ظہرانہ ڈپلومیسی"‎

دنیا میں اگر کوئی ریاست واقعی خود کو رسوا کرنے پر تُلی ہو تو وہ پاکستان ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں جمہوریت کی کھچڑی، آمریت کے آلو اور سفارت کاری کے ادھ کچے ہنڈے ایک ہی دیگچی میں پکائے جاتے ہیں اور پھر قوم کو ایک "ظہرانے" میں چپ چاپ کھلائے جاتے ہیں۔ یہاں قومی غیرت کا جنازہ نہ باقاعدہ نماز کے ساتھ نکلتا ہے، نہ جنازہ گاہ میں کوئی آنکھ اشک بار ہوتی ہے، کیونکہ سب کے چہروں پر کباب کی چکنائی لگی ہوتی ہے اور دماغوں میں "فرینڈلی تعلقات" کے بخارات بھرے ہوتے ہیں۔

چند دن قبل پاکستانی حکومت کے کچھ نمائندوں نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ظہرانہ فرمایا۔ قورمے، زردے اور سفارتی منافقت کی مہک ایک ساتھ بلند ہوئی۔ اسی دعوت کے بعد ریاست پاکستان نے باضابطہ انداز میں ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی سفارش کرنے کی بات چھیڑ دی۔

جی ہاں، نوبل انعام! اُس شخص کے لیے جس کے ہاتھ ہزاروں فلسطینیوں کے خون سے تر ہیں، جس نے اسرائیل کی پشت پناہی کھلے عام کی، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، بیت المقدس پر صیہونی پرچم لہرانے کی راہ ہموار کی اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے کو "کچرا کنڈی" قرار دیا۔ وہی ٹرمپ اب پاکستان کے ظہرانے میں "امن کا سفیر" بن بیٹھا!

یہ محض سفارتی لغزش نہیں، بلکہ قومی وقار کی اجتماعی خودکشی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ریاست کو چلو بھر نہیں بلکہ پورے ڈرین بھر پانی میں غرق ہو جانا چاہیے تھا۔

اور آج کی صبح؟ نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے۔

ٹرمپ نے، جی ہاں، وہی ٹرمپ، نے ایران کی جوہری تنصیبات پر براہِ راست حملہ کر دیا۔ نہ کسی بین الاقوامی اجازت کی پرواہ، نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت، نہ عالمی قوانین کی لاج۔ یوں لگتا ہے جیسے دنیا ایک جواری کے ہاتھ میں کھیل رہی ہو اور پاکستان؟ پاکستان اب بھی نوبل انعام کی دستاویز میں "پروف ریڈنگ" کر رہا ہے!

ایران کی سرزمین پر بارود برسا، انرجی سائٹس تباہ ہوئیں اور ہم؟ ہمارے دفترِ خارجہ کی نیند پوری نہیں ہوئی۔ شاید ترجمان ابھی "شدید تشویش" والے بیان کے الفاظ گنتی میں مصروف ہوں گے۔ شاید یہ طے کیا جا رہا ہو کہ اس دفعہ مذمت "بہت شدید" کہی جائے یا "نہایت افسوسناک"۔

اسی وقت ہمارے سوشل میڈیا پر ایک اور منظر چل رہا تھا: پاکستانی صحافی، تجزیہ نگار اور کچھ سابق سفارت کار یہ بحث کر رہے تھے کہ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے سے پاکستان کو "تجارتی مفادات" حاصل ہو سکتے ہیں۔

یعنی جب ایران کی زمین پر بارود برستا ہے، فلسطین کے بازار ملبے میں دفن ہوتے ہیں، کشمیر میں ظلم قیامت کو چھوتا ہے، تو پاکستان کی "تھرڈ کلاس ڈپلومیسی" کا کمپاس ہمیشہ واشنگٹن کی طرف گھوم جاتا ہے۔

کیا یہ قوم صرف تصویروں کی مسلمان ہے؟ کیا ہمارے وزرائے خارجہ، وزرائے اطلاعات، سفارتی مشیران واقعی انسانی ضمیر رکھتے ہیں یا صرف میز پر رکھے ہوئے "مفادات کے فولڈر" پڑھنا جانتے ہیں؟ فلسطینی بچوں کی لاشیں، ایرانی تنصیبات کی تباہی، کشمیریوں کی چیخیں، کیا یہ سب ہماری ضمیر کی فائلوں میں صرف ضمنی صفحے بن چکے ہیں؟

یقیناً، ہمارے ریاستی بیانیے میں منافقت ایک باضابطہ پالیسی ہے۔ ایک طرف OIC کے اجلاس میں تقریریں، دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم۔ ایک طرف ایران کو "دوست" کہنا، دوسری طرف اس کے دشمن کے ساتھ خوش مزاجی سے ناشتہ کرنا۔

ٹرمپ جیسے شخص کو نوبل انعام دلوانا ایسے ہی ہے جیسے کسی جلاد کو امن کا مصلح کہنا، کسی زہریلے سانپ کو شفاء کی دوا سمجھنا اور کسی قاتل کے ہاتھ میں سفید جھنڈا تھما دینا۔

اور اگر پاکستان اس راستے پر چل پڑا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ سفارتی عزت کوئی بازار سے خریدی جانے والی شے نہیں، یہ کردار سے بنتی ہے۔ جب ریاست خود اپنا ضمیر نیلام کرے، تو اسے کوئی دوست نہیں، صرف خریدار ملتے ہیں اور خریداروں کو صرف "مفاد" عزیز ہوتا ہے، نہ اسلام، نہ غیرت، نہ مظلوم کا درد۔

اس لیے اے ریاستِ پاکستان! اب بھی وقت ہے، ظہرانے سے نکل کر میدان میں آؤ، نوبل کی خوشامد سے نکل کر انصاف کے پلڑے میں کھڑے ہو اور سفارتی خوشبو سے نکل کر مظلوم کے خون کی بو کو محسوس کرو۔

ورنہ وہ دن دور نہیں، جب دنیا آپ کو صرف ایک مزاحیہ قوم کے طور پر پہچانے گی، جس کی حکومت دشمن کے قاتل کو امن کا علمبردار کہتی تھی اور دوستوں کے جنازوں پر بےحسی سے موبائل چیک کیا کرتی تھی۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari