Nojawan, Talee Aur Faisla Kun Ghalati
نوجوان، تعلیم اور فیصلہ کن غلطی

سترہ سے بائیس برس کی عمر وہ نازک، حساس اور فیصلہ کن مرحلہ ہے جہاں انسان کی شخصیت، سوچ اور مستقبل کی سمت متعین ہونا شروع ہوتی ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں ایک طالب علم کالج یا یونیورسٹی کے دروازے پر قدم رکھتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی معاشرے میں یہی وہ عمر ہے جہاں فیصلے شعور سے نہیں بلکہ مجبوری، روایت، سماجی دباؤ اور اندھی تقلید سے کیے جاتے ہیں۔ باپ کی خواہش، خاندان کی انا، دوستوں کی نقل، یا محض ڈگری کے خمار میں طالب علم ایک ایسے تعلیمی سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے جس کی منزل کا نہ اسے علم ہوتا ہے اور نہ راستے کی سختیوں کا ادراک۔
تعلیم، جدید نفسیات کے مطابق، محض معلومات کا انبار نہیں بلکہ فرد کی شخصیت، دلچسپی، فطری رجحان (aptitude)، ذہنی استعداد اور جذباتی مطابقت (emotional alignment) کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جب کوئی نوجوان اپنے فطری رجحان کے برعکس کسی فیلڈ میں داخل ہوتا ہے تو بظاہر وہ کلاس روم میں موجود ہوتا ہے مگر ذہنی طور پر غیر حاضر، منتشر اور بیزار رہتا ہے۔ یہی ذہنی تضاد آگے چل کر تعلیمی ناکامی، شدید ذہنی دباؤ، اضطراب، ڈپریشن اور خود اعتمادی کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ایک عام المیہ یہ ہے کہ تعلیم کو "عزت" کے ترازو میں تولا جاتا ہے، "صلاحیت" کے پیمانے سے نہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، CSS افسر، یہ چند لیبل ہیں جن کے پیچھے ہزاروں نوجوان اپنی شناخت قربان کر دیتے ہیں۔ جدید تعلیمی نفسیات کہتی ہے کہ اگر طالب علم کی دلچسپی اور اس کے منتخب کردہ فیلڈ میں ہم آہنگی نہ ہو تو وہ تعلیم بوجھ بن جاتی ہے اور بوجھ طویل مدت تک اٹھایا نہیں جا سکتا۔
خاص طور پر وہ طلبہ جو یونیورسٹی کے پہلے یا دوسرے سمسٹر میں ہیں، ان کے لیے یہ مرحلہ نہایت اہم ہے۔ یہ وہ "سنہری کھڑکی" ہے جہاں خود احتسابی، فکری تجزیہ اور سمت کی اصلاح ممکن ہوتی ہے۔ اگر طالب علم محسوس کرتا ہے کہ اس کا منتخب کردہ فیلڈ اس کی ذہنی ساخت، دلچسپی یا مستقبل کے اہداف سے مطابقت نہیں رکھتا تو جدید نفسیات اسے کمزوری نہیں بلکہ شعور کی علامت سمجھتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں فیلڈ تبدیل کرنا "ناکامی" کہلاتا ہے، حالانکہ اصل ناکامی وہ ہے جو انسان اپنی پوری عمر غلط راستے پر چل کر قبول کر لیتا ہے۔
تیسرے یا چوتھے سال میں داخل ہونے کے بعد فیلڈ چھوڑنا محض تعلیمی نقصان نہیں بلکہ نفسیاتی تھکن، احساسِ جرم اور وقت کے ضیاع کا شدید احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ طالب علم خود کو قید شدہ محسوس کرتا ہے: نہ وہ دل سے اس فیلڈ کو اپنا سکتا ہے، نہ چھوڑنے کی ہمت کر پاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ڈگری تو مکمل کر لیتا ہے مگر پیشہ ورانہ زندگی میں بے سمت، غیر مطمئن اور frustrated رہتا ہے۔ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ ایسے افراد میں job dissatisfaction، early burnout اور ذہنی بیماریوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔
یہاں ایک اور اہم پہلو "اسکوپ" کا ہے، جسے ہمارے ہاں یا تو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے یا مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسکوپ محض مارکیٹ میں موجود نوکریوں کا نام نہیں بلکہ اس بات کا جائزہ ہے کہ آیا طالب علم اس فیلڈ میں مہارت (skill)، تخلیق (innovation) اور تسلسل (consistency) کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے یا نہیں۔ اگر کسی فیلڈ میں دلچسپی نہ ہو تو اس کا اسکوپ خواہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو، وہ طالب علم کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔
پاکستانی تعلیمی نظام کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ career counseling کا تصور تقریباً ناپید ہے۔ سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی خود کو بھی مکمل طور پر نہیں پہچانا، اس سے زندگی بھر کا فیصلہ کروایا جاتا ہے۔ جدید نفسیاتی اصول کہتے ہیں کہ career choice ایک process ہے، ایک لمحاتی فیصلہ نہیں۔ مگر ہمارے ہاں اسے تقدیر کی لکیر بنا دیا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ طالب علم، والدین اور تعلیمی ادارے تینوں اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ طالب علم کو یہ حق دیا جائے کہ وہ سوال کرے، فیلڈ کو پرکھے، خود کو سمجھے۔ والدین کو یہ شعور دیا جائے کہ اولاد کا مستقبل ان کے خوابوں کی تکمیل نہیں بلکہ اولاد کی ذہنی و جذباتی فلاح میں ہے اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ محض داخلے اور فیس تک محدود نہ رہیں بلکہ طلبہ کی ذہنی رہنمائی، aptitude testing اور career guidance کو نظام کا حصہ بنائیں۔
آخر میں، سترہ سے بائیس برس کے نوجوانوں سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ تعلیم کو محض ڈگری نہ سمجھیں بلکہ خود شناسی کا سفر بنائیں۔ فیلڈ منتخب کرنے سے پہلے اس کے مضامین، مستقبل، اپنی صلاحیت اور دلچسپی پر گہرا غور کریں۔ اگر آپ یونیورسٹی کے ابتدائی سمسٹرز میں ہیں اور دل گواہی نہیں دے رہا، تو بروقت فیصلہ کریں۔ فیلڈ کو یا تو پوری پیشہ ورانہ سنجیدگی سے اپنائیں، یا جرات کے ساتھ ایسی سمت اختیار کریں جہاں آپ اپنی صلاحیت کو بامعنی بنا سکیں۔
یاد رکھیے، وقت سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ غلط فیلڈ میں گزارے گئے سال صرف کیلنڈر کے صفحات نہیں بدلتے، وہ انسان کے اندر کے خواب، توانائی اور اعتماد بھی کھا جاتے ہیں اور یہ نقصان، کسی بھی ڈگری سے کہیں زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔

