Niji Darsgahen Aur Mualim
نجی درسگاہیں اور معلم

پہلا دن تھا اور میں اسکول کے گیٹ کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا کہ استاد بننا گویا علم کی شمع تھامنا ہے، مگر گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے نظریں ایسے گھمائیں جیسے میں کوئی شکاری پرندہ ہوں جو اسکول کی معصوم چڑیا پر جھپٹنے آیا ہے۔ اندر داخل ہوا تو بیسمنٹ میں قائم کلاس روم ایسے لگ رہے تھے جیسے دیواریں بس کسی طوفان کا انتظار کر رہی ہوں کہ گر جائیں اور سب کو کھلی فضا نصیب ہو۔
پرنسپل صاحب نے مجھ سے پوچھا، "آپ ہمارے اسکول میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟" اور میں نے سادگی سے کہا، "یہاں کا ماحول بڑا پُرسکون لگتا ہے"۔ یہ الگ بات کہ یہ سکون مچھروں کو بھی پسند تھا۔ دو سبجیکٹ پڑھانے آیا تھا، مگر جوائننگ کے بعد چار دے دیے اور ساتھ میں ایک ایسا سبجیکٹ بھی جس کا نام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا: "لائف اسکلز"۔ یعنی زندگی بھی یہی پڑھانی ہے۔
کچھ عرصے بعد ایک اور اسکول میں انٹرویو ہوا۔ فارم پر "Expected Salary" کا خانہ تھا۔ میں نے حوصلے سے بھر کر لکھا۔ ڈیمو کلاس لینے بیٹھی محترمہ کا سائنس سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا میرے موبائل کا بارش کے موسم سے، یعنی بس کبھی کبھار۔ میں نے سوچا فلسفے کا تڑکا لگاؤں، آدھے گھنٹے میں بچوں کو کائنات کے ایسے ایسے راز بتا دیے جو مجھے بھی پوری طرح معلوم نہ تھے۔ بچے خوش، محترمہ متاثر، مگر مسئلہ یہ ہوا کہ وہ الٹی سیدھی باتیں بچوں کے دماغ میں نقش ہوگئیں۔ اگلے ہفتے میں نے اپنی ہی کلاس میں"سائنس کا تصحیحی آپریشن" کیا۔
تیسرا اسکول، بڑی بلڈنگ، بڑا اسٹاف، بڑی باتیں، مگر جب سیلری کی بات آئی تو کہنے لگے، "یہ آدھی کر دیں، اتنی تو میری بھی نہیں"۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، "پھر یہ خانہ رکھ کر جھوٹ کیوں بلوانا؟" مگر چہرے پر مسکراہٹ رکھی، کیونکہ یہاں سچ بولنے کا مطلب تھا باہر کا راستہ فوراً ملنا۔
چوتھے اسکول میں پرنسپل صاحب بڑے وقار سے بولے، "آپ عمر میں چھوٹے ہیں، اس لیے 37 ہزار دیں گے"۔ میں نے کہا، "عمر کا تعلق تنخواہ سے نہیں، کام سے ہوتا ہے"۔ بحث شروع ہوئی اور یوں لگا جیسے آلو کے بھاؤ پر سودا طے ہو رہا ہے۔ میں 50 پر اڑا، وہ 42 پر، نتیجہ یہ کہ سودا نہ ہوا، مگر اپنی ضد سلامت رہی۔
پانچویں اسکول میں تو حد ہی ہوگئی۔ کہا گیا تین سبجیکٹ پڑھا دیں۔ میں نے ہنسی مذاق میں کہا، "کیمسٹری، فزکس، بایولوجی، میتھ، اردو، اسلامیات سب پڑھا دیتا ہوں، ساتھ میں اگر وقت بچا تو سندھی بھی"۔ پرنسپل صاحب نے سنجیدگی سے کہا، "سیلری بتائیں"۔ میں نے حساب لگا کر کہا، "فیس آپ کو ایک لاکھ دس ہزار آ رہی ہے، ساٹھ مجھے دے دیں، باقی آپ رکھ لیں"۔ وہ مسکرا دیے اور میں سمجھ گیا کہ یہ مسکراہٹ دراصل ایک "شکریہ، لیکن نہیں" کا شارٹ کٹ ہے۔
ان چھ سالوں میں میں نے سیکھا کہ پرائیویٹ اسکول میں استاد ہونا ایسا ہے جیسے پانی میں آگ جلانے کی کوشش کرنا، ہر روز محنت، ہر روز امید اور اکثر نتیجہ دھویں کی طرح غائب۔ والدین فیس دے کر سمجھتے ہیں استاد خرید لیا، پرنسپل سمجھتے ہیں تنخواہ دے کر غلام رکھ لیا اور معاشرہ سمجھتا ہے استاد بس وقت گزار رہا ہے۔ مگر ہر استاد صبح مایوسی اور امید دونوں جیب میں ڈال کر آتا ہے، مایوسی اس نظام سے اور امید اس بچے سے جو شاید کل اس نظام کو بدل دے۔

