Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Mutala Se Tehreer Tak

Mutala Se Tehreer Tak

مطالعے سے تحریر تک

میرا علمی و فکری سفر ایک ایسے خوش رنگ چمن کی مانند ہے، جہاں ہر شاخ پر دانائی کے خوشبو بکھیرتے گل ہائے معانی کھلے ہیں اور ہر پتہ کسی نہ کسی نکتۂ معرفت کی سرگوشی کرتا ہے۔ میری تعلیمی زندگی کا آغاز مادری زبان میں ہوا، مگر جب میں چودہ یا پندرہ برس کا تھا، تو گھر میں موجود اردو ادب کے بیش بہا خزانوں نے میرے فکری جہان کو نئی وسعتوں سے روشناس کیا۔ یہ گویا ایک سوتے کی مانند تھا، جس نے رفتہ رفتہ ایک دریا کی صورت اختیار کر لی۔

چونکہ میرے بڑے بھائی اردو زبان میں سندی تعلیم حاصل کر رہے تھے، اس لیے گھر میں ایک علمی ماحول میسر آیا، جہاں موقر و مستند کتابیں گویا چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ انہی چراغوں کی روشنی میں میں نے اپنی فکری منزل کا تعین کیا۔ "مخزنِ ادب" سے لے کر "مسدسِ حالی" تک، "دیوانِ غالب" سے "مقدمۂ شعر و شاعری" تک اور "کارل مارکس" کے مضامین سے "حیاتِ جاوید" تک، ہر کتاب ایک نئی دنیا کا در وا کرتی رہی۔

"شوق کا کوئی مول نہیں" کے مصداق، میں نے اردو زبان سے اپنی علمی وابستگی کو ہمیشہ بر قرار رکھا۔ اگرچہ میں نے اردو زبان میں کوئی رسمی سند حاصل نہیں کی، مگر میرے مطالعے کی گہرائی، مشاہدے کی گیرائی اور مسلسل ریاضت نے مجھے ایک پختہ نثر نگار میں ڈھال دیا۔ کسی استاد کے زیرِ سایہ باضابطہ تربیت حاصل کیے بغیر، خودی کی شمع جلا کر میں نے اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

نہ پوچھ وسعتِ صحرائے فکر کی مجھ سے
جہاں تلک گئے ہم، رہ گزر بنی ہے ابھی

جب میں نے سولہ یا سترہ برس کی عمر میں عربی زبان و ادب کا گہرا مطالعہ کیا، تو مجھے یہ دریافت کرنے کا موقع ملا کہ اردو زبان کی جڑیں عربی و فارسی میں کس قدر مضبوطی سے پیوست ہیں۔ یہ حقیقت میرے لیے آبِ حیات ثابت ہوئی اور میں نے تینوں زبانوں کے باہمی ربط، فکری تسلسل اور ادبی اشتراکات پر غور و فکر کیا۔ شاعری کا شوق بھی انگڑائی لینے لگا اور میں نے "بانگِ درا"، "بالِ جبریل"، "دیوانِ میر" اور "رباعیاتِ عمر خیام" جیسے شاہکاروں کا بغور مطالعہ کیا۔ مگر جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ شعر کہنا "ہر کسی کے بس کا روگ نہیں، یہ وہ آتش ہے جو ہر دل میں جلا نہیں کرتی"۔ چنانچہ میں نے شاعری کو خیرباد کہہ کر نثر نگاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

میری تحریری صلاحیتوں میں نکھار محض ذاتی شوق اور جستجو کا نتیجہ نہیں بلکہ مستقل مزاجی اور مطالعے کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہونے کا ثمر ہے۔ میں نے "عوامل فی النحو"، "صرف میر"، "ہدایہ النحو"، "بلاغۃ العرب" اور "مبادی العربیہ" جیسی عربی کی معتبر کتب کا مطالعہ کیا، جس نے نہ صرف میری فکری بنیادوں کو مزید مستحکم کیا بلکہ میرے طرزِ تحریر میں بھی ایک لطیف نکھار پیدا کر دیا۔ یہ مطالعہ میرے لیے "مشعلِ راہ" ثابت ہوا اور میں نے عربی، فارسی اور اردو کے لسانی و فکری اشتراک کو اپنی تحریروں میں سمو لیا۔

2018 تک میں مختلف سماجی، فلسفیانہ اور علمی موضوعات پر مضامین قلمبند کرتا رہا، مگر 2020 کے بعد میں نے اپنی فکری توانائیاں تحقیقی و سائنسی مضامین کی تخلیق میں صرف کرنا شروع کر دیں۔ چونکہ میں بنیادی طور پر حیاتیاتی علوم کا طالبعلم ہوں، اس لیے میری یہ خواہش رہی کہ سائنسی موضوعات کو سادہ و عام فہم انداز میں پیش کیا جائے، تاکہ عام قارئین بھی ان پیچیدہ مباحث سے مستفید ہو سکیں۔

ہمارے معاشرے میں سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرنے کا فقدان ہے۔ اس خلاء کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی تحریری کاوشوں کو سائنسی علوم کے فروغ کی سمت موڑ دیا۔ "جہاں چاہ، وہاں راہ" کے اصول پر کاربند ہو کر، میں نے اپنی تمام تر توجہ سائنسی و تحقیقی تحریر پر مرکوز کر دی۔ آج میں سائنسی علوم کو اردو زبان میں منتقل کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہوں، تاکہ "علم کا چراغ" ہر ذہن کی تاریکی کو دور کر سکے۔ الحمدللہ، میں اب تک 60 سے 70 سائنسی مضامین قلمبند کر چکا ہوں اور یہ سفر ان شاء اللہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

میری یہ ادبی و سائنسی کاوش اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ "سیلِ رواں کو کوئی روک نہیں سکتا"۔ زبان کا سیکھنا محض درسی کتب تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل فکری و عملی جدوجہد ہے جو مطالعے، مشاہدے، تجزیے اور استقامت کے ذریعے ایک منفرد طرزِ تحریر کی صورت میں ڈھلتی ہے۔ میرا یہ سفر ایک عام قاری سے ایک علمی و تحقیقی مصنف تک کا ہے اور مجھے قوی یقین ہے کہ "دریا کی روانی" ایک دن سمندر سے ہمکنار ضرور ہوگی۔

میرا خواب ہے کہ اردو زبان میں سائنسی علوم کی ترویج کو ایک تحریک کی صورت میں فروغ دیا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں اس علمی ورثے سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ "جو آج کا بیج ہے، وہی کل کی فصل بنے گا"۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam