Mimbar Ya Jazbat Ki Bazari Numaish?
منبر یا جذبات کی بازاری نمائش؟

موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا نے فنونِ خطابت کو چند منٹ کی ویڈیو، وائرل کلپس اور دل دہلا دینے والے عنوانات تک محدود کر دیا ہے، وہیں منبرِ حسینی بھی اس سطحیت کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ یہ وہی منبر ہے جس پر بیٹھنے کے لیے ماضی میں تقویٰ، علم، حلم، فہمِ دین اور تربیتِ معصومینؑ کی سند لازم سمجھی جاتی تھی۔ مگر آج ہر وہ شخص جسے چند اشعار حفظ ہوں، جس کے لہجے میں تھوڑی سی آواز کی گھن گرج ہو، جس کے یوٹیوب چینل پر چند ہزار فالوورز ہوں، وہ خود کو ذاکر کہلانے لگتا ہے۔ نہ اصولِ دین کا شعور، نہ فروعِ دین کی گہرائی، نہ تاریخِ کربلا کا تحقیقی فہم، نہ کلامِ معصومینؑ کا نظم۔ فقط چند جذباتی جملے، کچھ ریلیز ویڈیوز اور پھر منبر پر قبضہ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں منبر اپنی اصل کھو بیٹھتا ہے۔ جب منبر پر بیٹھنے کا معیار فقط "گریہ بر انگیز" خطابت رہ جائے، تو وہ مرکزِ اصلاح و تربیت نہیں رہتا، وہ فقط "جذباتی انرجی کی ڈسچارج" کا اسٹیج بن جاتا ہے اور یہ سراسر خیانت ہے اُس مقدس مشن سے جس کی بنیاد مظلومِ کربلا نے اپنے خون سے رکھی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ ذکرِ حسینؑ صرف آنکھوں کو نم کرنے کا نام نہیں، یہ عقل کو بیدار کرنے، نفس کو پاک کرنے اور معاشرے کو ظلم کے خلاف کھڑا کرنے کا پیغام ہے۔ مگر جب کم علم افراد منبر پر بیٹھ کر عقائد پر گفتگو کرنے لگیں، تو دین کی نزاکتیں، احکامِ شریعت کی پیچیدگیاں اور کلامِ معصومینؑ کی لطافتیں مسخ ہو جاتی ہیں۔ یہاں غلطی فقط لفظ یا تلفظ کی نہیں ہوتی، یہ غلطی عقیدے کی بنیادوں کو ہلا سکتی ہے اور جب عقیدہ بگڑ جائے، تو قوم کا اخلاق، فکر اور عمل سب زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
منبر پر بیٹھنا فقط بولنے یا مشہور ہونے کا نام نہیں، یہ ذمہ داری ہے، امانت ہے اور وقت کے فرعونوں کے خلاف سفیرِ حسینؑ بننے کا منصب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر وہی فرد فائز ہو جس نے فقہ، اصولِ عقائد، علمِ حدیث اور تاریخِ کربلا کو تحقیقی نظر سے سمجھا ہو، جس کی علمی بنیاد حوزہ علمیہ یا کسی مستند دینی ادارے سے مربوط ہو اور جس کا کردار متقی، زبان باوقار اور نیت خالص ہو۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان افراد کی حوصلہ افزائی کریں جو اچھے سوز و سلام یا قصائد پڑھتے ہیں، مگر انہیں نوحہ خوانی و مرثیہ خوانی تک محدود رکھیں۔ ایک اچھے لہن میں پڑھنا اپنی جگہ باعثِ اجروثواب ہے، مگر شریعت کی باریکیوں میں گفتگو کرنا، عقائد کے نکات چھیڑنا اور فقہی یا اصولی مسائل پر رائے زنی ایک بالکل مختلف اور نہایت حساس میدان ہے، جو ہر شخص کے اختیار میں نہیں دیا جا سکتا۔ فنِ قرائت اور فنِ اجتہاد، دونوں اپنی اپنی جگہ محترم ہیں، مگر ان کا آپس میں خلط امت کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
جب ہم کم علم، غیر مستند افراد کو فقط جذبات کی بنیاد پر منبر سونپ دیتے ہیں، تو ہم دراصل دین کے خالص سرچشموں میں خود ملاوٹ کرنے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ:
ہم منبر کو محض ایک "پرفارمنگ آرٹ" نہ بنائیں۔
ہم تحقیق یافتہ، متقی اور سند یافتہ علماء کو ترجیح دیں۔
ہم منبر کو بازارِ خطابت سے نکال کر مرکزِ ہدایت و بصیرت بنائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جس سے مجالسِ حسینؑ حقیقی معنوں میں "مدرسۂ سیرتِ معصومینؑ" بن سکتی ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم اپنی صفوں کو سنواریں، منبر کے وقار کو بحال کریں اور زمانے کے یزیدوں کے خلاف ایک فکری، اعتقادی اور اخلاقی انقلاب کی بنیاد رکھیں۔
ورنہ اگر یہی روش جاری رہی، اگر منبر پر علم کے بجائے آواز کو معیار سمجھا گیا، اگر دین کے گہرے نکات کو فیس بُک لائیو اور یوٹیوب کلپس کی نظر کر دیا گیا، تو صرف ذکرِ حسینؑ ہی بازاری نہیں ہوگا، خود حسینؑ کے پیغام کی حرمت بھی مجروح ہو جائے گی۔
آیئے، ہم وہی عہدِ خلوص و علم بحال کریں۔ آیئے، منبر کو صرف علماء کا، فقط اہلِ علم و تقویٰ کا مرکز بنائیں۔ کیونکہ یہی وہ قافلہ ہے جس کی رہنمائی میں امت، وقت کے ہر یزید کو شکست دے سکتی ہے۔

