Mazdoor Aur Auzar e Mehnat
مزدور اور اوزار محنت
سورج سوا نیزے پہ ہے گرمی کی تپش سے جانور ہانپ رہے ہیں پرندے بھی پانی کے کورزوں میں غوطہ زن ہو رہے ہیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بند ہیں پرائیوٹ اداروں میں بھی قفل لگے ہوئے ہیں، سڑکیں شاہ راہیں و گلیاں ویران ہیں۔ اسی اثنا میں ایک لاغر بزرگ کسی شاہراہ پہ اپنے اوزار ثبوت مشقت لیکر اس امید میں بیٹھہ ہے کہ کوئی آئے اورآکے مجھے چند رپوں کے لیے مزدوری دے۔ جی ہاں یہ وہ محنت کش ہیں جنہیں خود سے منسوب دن بھی محنت و مشقت سے استثناء حاصل نہیں۔
اگر یہ ایک دن بھی خود کو فکر معاش سے مبرا سمجھے گا تو گویا یہ متاسفین میں شمار ہو گا کیونکہ اس دن ان کا کنبہ اب و دانے سے محروم رہے گا۔ انکی حالات پر یوں بھی ترس آتا ہے کیونکہ انکے رفتگان بھی اسی پیشہ سے منسلک تھے جنہوں نے ان ہی مشقتوں کے لیے چارجامہ پہنا اور چابک کے وار سہتے رہے انکی موجود حالات بتارہی ہے کہ ان کی نئی نسل کا دائرہ معاش بھی اوزار مشقت ہونگے۔ گرمی کی تپش اور لوہے کے اوزار وجود نحیف کو داغنا کردیتا ہے پر پھر بھی جھکی کمر انہیں مشقت سے باز نہیں رکھتی اور نہ ہی انکے کنبے کو رپٹ دیتا ہے۔ انکی انکھیں بتارہی ہوتی ہے کیونکہ انکھوں کا تل بھی لعل ہوچکا ہوتا ہے اور دن بھر کی محنت اور مشقت کے بعد گھر لوٹ اتا ہے اور پگڑی سے تکیہ بنا کر ارام کرتا ہے اور نظریں ادھر ادھر پھرتا ہے تو دیواروں پہ حشرات العرض کی پچکاری نظر اتی ہے، کنبہ کو دیکھتا ہے تو بے اختیار یہ الفاظ نکلتے ہیں جائے تنگ است و مردباں بسیار، تن اولاد کو دیکھتا ہے تو وجود تزلزل کا شکار ہوتا ہے اور بزرگ ماں باپ کو دیکھ کر اننتی سے پائنتی تک لعل ہوجاتا ہے اور بے ساختہ اواز حرس نکلتی ہے۔
جب ہاتھ جیب میں ڈالتا ہے تو کل یوم کی کمائی چند سو روپے نکلتے ہیں جس سے محض دووقت کی روٹی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ ان رپوں کو دیکھ کر ان کے چہرے پہ اوب اجاتی ہے اور اعتزال میں بیٹھہ جاتا ہے اور کبھی ذھن میں استدراجی کام اجاتے ہیں جن سے غربت کو تہ تیغ کرنا چاہتا ہے پر حالات سازگار نہیں ہوتے اور وقت بھی اجازت نہیں دیتا کیونکہ حفظ ماتقدم نہ ہونے کی وجہ سے صبح واپس محنت پر جانا ہوتا ہے اور یوں روز کا معموم جاری رہتا ہے اور ایک دن موت کا فرشتہ در غریب پر دستک دیتا ہے اور یوں یہ محنت کش خواہشات کو سینے میں سمو کر اسودہ خاک ہو جاتا ہے۔