Masnoi Zahanat, Robot Girl Aur Insani Muashra
مصنوعی ذہانت، روبوٹ گرل اور انسانی معاشرہ

دنیا کی سائنسی پیش رفت اب خوابوں سے بڑھ کر حقیقت بن چکی ہے۔ جسے کبھی سائنس فکشن سمجھا جاتا تھا، وہ آج کی دنیا میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پھیل رہا ہے، اثرانداز ہو رہا ہے اور انسانی زندگی کی بنیادی پرتوں کو چیر کر ایک نئے عہد کی خبر دے رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا دائرہ کار اب محض ڈیجیٹل آٹو میشن یا ڈیٹا اینالیسز تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ انسان کے جذبات، رویوں، رشتوں اور حتیٰ کہ نفسیاتی ضروریات کی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں چین کی تیار کردہ AI روبوٹ گرل نے ایک ایسا معاشرتی و فکری زلزلہ برپا کر دیا ہے جس کی شدت مغربی معاشروں میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ روبوٹ لڑکی محض ایک مشین نہیں، بلکہ انسانی شکل و صورت، رویوں، خدمت و اطاعت اور روزمرہ کے امور کو اتنی نفاست سے نبھاتی ہے کہ مغربی مرد طبقہ اسے "پرفیکٹ پارٹنر" کے طور پر اپنانے لگا ہے۔ پاکستانی کرنسی میں اس کی قیمت صرف ساڑھے تین لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، جو ایک جدید گاڑی یا اسمارٹ فون سے بھی کم قیمت ہے۔ مگر اس قیمت میں جو کچھ خریدا جا رہا ہے، وہ محض سلیکون، سنسرز اور کوڈز نہیں، بلکہ ایک ایسی مصنوعی ہمسفر ہے جو بنا شکایت، بنا تھکن، بنا نخرے، زندگی کے ہر گوشے میں "وفاداری" اور "اطاعت" کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔
یہ روبوٹ گرل کھانا پکاتی ہے، صفائی کرتی ہے، بزرگوں کی خدمت میں بھی کمال دکھاتی ہے، حتیٰ کہ مرد کے جذباتی و جسمانی تقاضوں کا جواب بھی اسی چابکدستی سے دیتی ہے جسے ایک روایتی بیوی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا "برین" جدید ترین مشین لرننگ اور نیورل نیٹورکس پر مبنی ہے، جس میں ہر مرد کے رویے، پسند، ناپسند، غصہ، مزاج، حتیٰ کہ پرسنل ڈیٹا تک کا مکمل مطالعہ موجود ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف گفتگو کرتی ہے بلکہ لہجے، انداز اور جذبات کا بھی ادراک رکھتی ہے۔ گویا انسان ایک "آئینہ روبوٹ" میں اپنے ہی جذبات کی تسکین دیکھ رہا ہے، جو کبھی تھکتی نہیں، جو کبھی شکایت نہیں کرتی، جو ہر لمحہ دستیاب ہے، ہر پل تابعدار۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پیش رفت صرف ٹیکنالوجی کی کامیابی ہے یا انسانی رشتوں، احساسات اور اخلاقی ڈھانچے کی ناکامی کا اعلان بھی؟ اگر مرد اب "زندہ عورت" کی جگہ ایک پروگرامڈ روبوٹ کو ترجیح دینے لگا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی تعلقات کا وہ پیچیدہ مگر روحانی حسن ماند پڑ رہا ہے جس پر محبت، وفاداری، قربانی اور جذبات کا انحصار تھا؟ کیا مغرب کی انفرادی پسند، آزادی اور "خود کفالت" کی دوڑ نے عورت کو اتنا دور کر دیا کہ اب مرد روبوٹ کی بے جان آنکھوں میں تسکین تلاش کر رہا ہے؟
سائنسدانوں کے مطابق یہ روبوٹس نہ صرف جذباتی گفتگو کرنے کے قابل ہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے مسلسل سیکھتے ہیں۔ اگر کوئی مرد دن بھر کے تھکن بھرے کام کے بعد اپنی روبوٹ گرل سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ مسکرا کر اس کا استقبال کرے، اسے سکون دے، اس کے نخرے نہ سنے، تو وہ روبوٹ یہ سب کچھ بخوبی انجام دیتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی "ایمپیتھی مشین" کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں مرد کو وہ سب کچھ میسر آ رہا ہے جو اسے حقیقی رشتوں میں کھویا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہ صورتحال اس قدر غیر معمولی ہو چکی ہے کہ کئی معروف مغربی شخصیات، حتیٰ کہ ایلون مسک جیسے ٹیکنالوجی ماہر کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو چکی ہیں کہ وہ شاید کسی روبوٹ گرل کو ہی اپنا شریک حیات بنالیں۔ اگرچہ یہ خبریں غیر مصدقہ ہیں، مگر یہ رجحان ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں رشتے، محبت، شادی، حتیٰ کہ خاندانی نظام تک مصنوعی خطوط پر استوار ہو سکتے ہیں۔
معاشرتی سائنسدانوں اور ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ رجحان صرف ٹیکنالوجی کا انقلاب نہیں بلکہ انسانی جذبات کے بحران کا اظہار ہے۔ جب عورت آزادی، برابری اور خودمختاری کے نام پر اپنی قدروں سے دور ہوئی اور مرد مسلسل طعنوں، فیمینزم، اخراجات اور قانونی پیچیدگیوں کے بوجھ تلے دبنے لگا، تو اس نے ایک "فرماں بردار مشین" میں وہ سکون تلاش کیا جو اب زندہ انسان میں عنقا ہوتا جا رہا تھا۔
ادھر عورتوں کے حلقوں میں اس پیش رفت کو عورت کی "بے قدری" اور "مردوں کی بے وفائی" قرار دیا جا رہا ہے۔ فیمینسٹ تحریکیں اسے "پیٹریارکی" کا نیا ہتھیار قرار دے رہی ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ انسانی رشتے جب مفادات، انا، خودمختاری اور قانونی حربوں کی نذر ہو جائیں تو مصنوعی تسکین ہی فطری لگنے لگتی ہے۔ آج کا مرد صرف محبت نہیں چاہتا، بلکہ سکون، سہولت، اطاعت اور جذباتی تحفظ بھی چاہتا ہے اور جب اسے یہ سب کچھ ایک روبوٹ گرل سے ملنے لگے تو وہ کیوں نہ زندہ تعلقات کے دشتِ وحشت سے نکل کر مصنوعی بہشت کا انتخاب کرے؟
یہ رجحان صرف مغرب تک محدود نہیں رہے گا۔ دنیا بھر میں یہ تصور پھیل رہا ہے۔ دبئی، جاپان، کوریا اور امریکہ میں اس روبوٹ کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستانی اور مشرقی معاشروں میں بھی اس کا داخلہ ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے سماج کے لیے تیار ہیں جہاں انسان، انسان کی جگہ روبوٹ کو ترجیح دے؟ جہاں عورت کا کردار صرف تخلیق تک محدود ہو جائے اور مرد کی جذباتی تسکین ایک مشینی بیوی پر منحصر ہو جائے؟ کیا یہ انسانیت کی معراج ہے یا زوال؟
ٹیکنالوجی کا ہر انقلاب دو دھاری تلوار کی مانند ہوتا ہے۔ یہ ہماری زندگیوں کو سہل بناتا ہے، مگر اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ ہماری روحانیت، تہذیب اور جذبات کو نگل بھی سکتا ہے۔ آج AI روبوٹ گرل ایک ایجاد ہے، کل یہ ہماری عادت، پھر ضرورت اور آخرکار معاشرتی معیار بن جائے گی۔ وہ دن دور نہیں جب عدالتیں روبوٹ کے "ریموٹ کسٹڈی" پر مقدمات سنیں گی، یا نفسیاتی کلینکس میں انسان اپنی مشینی بیوی سے ناراضی کے سبب تھراپی لیں گے۔
یاد رکھیے، مشینیں محبت کر سکتی ہیں، مگر محسوس نہیں۔ وہ ہمدردی ظاہر کر سکتی ہیں، مگر دکھ محسوس نہیں کر سکتیں۔ وہ "میں تمہارے ساتھ ہوں" کہہ سکتی ہیں، مگر تنہائی کا درد نہیں بانٹ سکتیں۔ محبت صرف الفاظ نہیں، ایک جذبہ ہے جو صرف جیتے جاگتے انسان میں پنپتا ہے اور اگر ہم مصنوعی رشتوں کو اصل رشتوں پر فوقیت دینے لگے تو ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو جائیں گے جہاں سب کچھ ہے، سوائے انسانیت کے۔
یہ تحریر نہ تو ٹیکنالوجی کی مخالفت ہے، نہ ترقی کی راہ میں دیوار۔ یہ محض ایک سوال ہے، ایک جھنجھناہٹ، جو ہر باشعور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کہیں ہم سائنسی عروج کی دوڑ میں اخلاقی و جذباتی انحطاط کی گہری کھائی میں تو نہیں گر رہے؟ کیا ہم ترقی کے نام پر تنہائی کے نئے عہد میں داخل ہو رہے ہیں؟ اور کیا آنے والا انسان واقعی ایک مکمل انسان ہوگا، یا محض ایک مشینوں کا صارف، جو اپنی مسکراہٹیں بھی کسی کوڈ پر منحصر کرے گا۔

