Khwab Aur Haqiqat
خواب اور حقیقت

خواب۔۔ وہ نرگسی بلبلے جن میں بچپن کے دن قوس و قزح کی طرح لپٹے ہوتے ہیں۔ وہ جو کسی کچے صحن میں گیلی مٹی کی خوشبو کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو آسمان کو چھونے کی ضد کرتے ہیں، جو بے نام امیدوں سے بندھے ہوتے ہیں، مگر جب حقیقت کا سنگین پتھر ان پر گرتا ہے تو اکثر کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں ہم سب ایسے ہی خواب دیکھتے ہیں، جو بڑے ہو کر ہمیں ناممکن دکھائی دیتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ خواب ہی ہوتے ہیں جو انسان کو جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
میرا بھی ایک خواب تھا، لکھنے کا، تحقیق کرنے کا، ایک ایسی دنیا بسانے کا جہاں علم، مشاہدہ اور تخلیق ہو۔ مگر یہ خواب یوں یکایک نہیں جاگا۔ مجھے اپنی تخلیقی قوت کا پہلا ادراک نویں جماعت میں ہوا، جب میری استانی نے مضمون لکھنے کو کہا: "معاشرے اور ہماری ذمہ داریاں"۔ میں نے لکھا اور پہلی بار محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت ہے، جو صرف نوکِ قلم سے اظہار پاتی ہے۔ اس دن میرے خواب نے لفظوں کی صورت اختیار کی۔
دسویں جماعت میں میرے فزکس کے استاد نے ایک دن کہا: "تم اشیاء میں اندھیرے تلاش کرتے ہو۔ تمہاری نگاہ سطح کے نیچے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تمہیں تحقیق کرنی چاہیے"۔ وہ جملہ صرف مشورہ نہیں، ایک پیشگوئی تھی، ایک خواب کی تصدیق۔ میں نے تب طے کیا کہ میں صرف لکھنے والا نہیں، تلاش کرنے والا بنوں گا۔ حقیقتوں کے پردے چاک کرنے والا۔ مجھ میں چیزوں کو باریک بینی سے جانچنے کا جو وصف تھا، وہ میرے استاد کی بصیرت نے پہچان لیا تھا۔
میٹرک کے بعد، جب انٹرمیڈیٹ کا آغاز ہونا تھا، تب میں نے ایک خواب اور دیکھا۔ یہ خواب کسی علمی پہاڑ کو سر کرنے جیسا تھا: میں نے دن رات ایک کرکے تاریخ پر ایک کتاب تحریر کی۔ "مدّ و جزرِ تاریخ"، ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل کتاب، جو میری محنت، لگن اور شعور کی پہلی سنجیدہ پیشکش تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جب یونیورسٹی کے دہلیز پر قدم رکھوں، تو میرے پاس ایک درجن کتابیں ہوں۔ یہ میری کم عمر خواہش، لیکن عظیم تر ارادہ تھا۔
کتاب مکمل ہوئی، پروف ریڈنگ اور ٹائپنگ بھی، مگر جب اشاعت کی بات آئی تو دنیا کی ایک اور حقیقت سامنے آئی: اشاعت کی قیمتیں میرے وسائل سے بہت دور تھیں۔ میں جگہ جگہ گیا، فائلیں، مسودہ، نمونے، سب کچھ لے کر۔ مگر ہر در وا ہوتا نظر آیا، صرف تب تک جب تک مالی گفتگو نہ ہوتی۔ میں کتاب چھپوا نہ سکا۔ پھر ایک دن ٹی وی پر ایک منظر نے میری امیدوں کی ٹانگیں توڑ ڈالیں۔ ایک اکیس سالہ لڑکی، جس کی کہانیوں کی کتاب صرف پچاس صفحات پر مشتمل تھی، نہ صرف ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی، بلکہ اس کی تقریبِ رونمائی میں شعراء، ادیب اور سیاستدان بھی شریک تھے۔ میں پندرہ برس کی عمر میں کتاب لکھ چکا تھا، مگر میرے ہاتھ خالی تھے۔ اُس لمحے دل شکستہ ہوا، قلم کو ایک طرف رکھا اور خواب کو دل میں دفن کرنے کی کوشش کی۔ مگر خواب کبھی دفن نہیں ہوتے۔ وہ راکھ میں چھپی چنگاری کی مانند ہوتے ہیں، جو ذرا سی ہوا سے پھر سے دہک اٹھتے ہیں۔
جب انٹر کا آغاز ہوا، تو ایک پرائیویٹ اسکول میں تدریس شروع کی۔ ساتھ ہی یونیورسٹی میں زولوجی کے شعبے میں داخلہ لیا۔ میں سمجھتا تھا کہ اب تحقیق کی حقیقی دنیا میں قدم رکھ رہا ہوں۔ مگر دو ہی کلاسز کے بعد عالمی وبا، کرونا، نے سب کچھ روک دیا۔ وقت بے سمتی میں بہنے لگا۔ مگر میں نے اس بہاؤ کو اپنا راستہ بنا دیا۔ "اپنی سوچ بدلیں" کے عنوان سے ایک کتابچہ تحریر کیا، جو اگرچہ اشاعت کی دہلیز عبور نہ کر سکا، مگر میرے اندر کے محقق کو تسکین دے گیا۔
جب اشاعت کے در بند دیکھے، تو بلاگنگ کا رخ کیا۔ آن لائن کالم لکھے، سائنسی، طبی، ویکسی نیشن، اینٹی بایوٹکس، میڈیکل تاریخ، موضوعات بے شمار، جذبہ ایک: علم کی روشنی پھیلانا۔ ہزاروں قارئین نے پڑھا، سراہا۔ مگر ایک دن ایک نامور قلمکار نے میری تحریر چرا کر اپنے نام سے ایک بڑے اخبار میں چھپوا دی۔ میں نے احتجاج کیا، اخبار کو ای میل بھیجی، تسلی تو ملی، انصاف نہیں۔ اس دن طے کیا کہ اب کہیں بھی لکھوں، صرف اپنے اصولوں اور اپنے نام کے ساتھ۔
جب یونیورسٹی کی کلاسز بحال ہوئیں تو ایک اور کربناک حقیقت سے واسطہ پڑا۔ جس ادارے کو میں نے تحقیق کا گہوارہ سمجھا تھا، وہاں مفروضے تھے، رٹافیکشن کی دلدل، مصنوعی تشریحات کا شور۔ نہ علم کی پیاس بجھی، نہ تحقیق کا ذوق تسکین پایا۔ دل میں ایک بیزاری بھر گئی، جیسے کوئی ہنر مند سازندہ بے سُرے راگ میں پھنس جائے۔
تحریر کا سلسلہ رُک گیا، اخبارات، رسائل سب چھوڑ دیے۔ بس تنقیدی سوچ کو زندہ رکھا اور دلی رشتہ اردو کالمز سے نبھاتا رہا۔ معاوضے کا مسئلہ الگ تھا، یا وقت پر نہیں دیتے، یا وعدے کے مطابق نہیں۔ ایک سال سب کچھ ترک کر دیا۔
مگر خواب پھر جاگے۔ جنگ سنڈے میگزین میں سائنسی کالمز لکھنے کا آغاز کیا۔ تجربات، رجحانات اور نئی دریافتوں پر مبنی مضامین لکھے، جنہیں سنجیدہ علمی حلقوں میں سراہا گیا۔ مگر اب بھی میرے اندر ایک تشنہ روح ہے، جو ہر لمحہ نئے خواب دیکھتی ہے، قلم اب بھی بےچین ہے اور ذہن اب بھی تحقیق کی بھٹی میں دہکتا ہے۔
خواب اور حقیقت کا فاصلہ گویا زمین و آسمان کی طرح ہے۔ خواب ہلکے، خوش رنگ، نرم، جیسے شفق کے بادل اور حقیقت؟ کٹھور، سرد، گونگی، جیسے کنکریٹ کی دیوار۔ میرے کئی خواب شائع نہ ہو سکے، کئی تحریریں فائلوں میں دب کر رہ گئیں، کئی مضامین کے خالق کے طور پر میرا نام کہیں نہ تھا۔ مگر ان سب محرومیوں نے مجھے توڑا نہیں، تراشا ہے، جیسے فنکار چٹان کو چیر کر مجسمہ بناتا ہے۔
آج بھی میں لکھتا ہوں، اس لیے نہیں کہ مشہور ہو جاؤں، بلکہ اس لیے کہ میری سانسیں قلم سے بندھی ہیں۔ تحقیق کرتا ہوں، اس لیے نہیں کہ کوئی سند ملے، بلکہ اس لیے کہ علم کی پیاس کبھی بجھتی نہیں اور خواب دیکھتا ہوں، اس لیے کہ حقیقت کی بنجر زمین پر پھول اگانے کے لیے آسمان سے کچھ اترنا ضروری ہوتا ہے۔
آخری سطر بس یہی ہے: "خواب وہ بیج ہیں جو آنکھوں میں بوئے جاتے ہیں اور اگر جذبے کے خون سے سینچے جائیں، تو ایک دن حقیقت کے میدان میں شجر بن جاتے ہیں، سایہ دار، ثمر بار اور لازوال"۔

