Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Khudari Ka Soda Kab Band Hoga

Khudari Ka Soda Kab Band Hoga

خودداری کا سودا کب بند ہوگا‎

یہ قوم اب بھی قافلۂ بے یقینی کی مسافر ہے، جس کی جیب میں خواب تو ہیں، مگر وہ خواب بھی چین ساختہ ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سمارٹ فونز سے پچپن میں گودی سے سکھاتے ہیں کہ ترقی کا مطلب ایپل کا سیب ہے اور خود انحصاری کا مفہوم محض جملۂ معترضہ! ہمیں اپنی زبان میں سوچنے سے بھی خوف آتا ہے، مبادا ہماری سوچ دیسی قرار پائے۔

بولو اے قوم کے تھکے ارادے والو! کب تک دوسروں کی ایجادوں پہ تالیاں بجاتے رہو گے؟ کب تک مغرب کی زلفِ پریشاں کو تمدن کا تاج پہنا کر اپنے افکار کی نعشوں کو دفناتے رہو گے؟ کبھی تم نے سوچا کہ تمہاری گلیوں میں گونجتی آوازیں کیوں بوجھل ہیں؟ کیوں ہر سائن بورڈ پہ انگریزی کے سپیلنگ ہیں اور دماغوں میں فکری مرگی؟

ہم وہ قوم ہیں جو عید پہ کپڑے فرانس سے منگواتے ہیں، نعتیں چینی موبائل پہ سنتے ہیں اور سحر و افطار کا کیلنڈر جاپانی گھڑی سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا قبلہ بھی مغرب ہے اور منزل بھی۔ ہمیں اپنے اجداد کے کارنامے فیس بُک کے تبصروں سے یاد آتے ہیں اور ان کی قربانیاں "او ٹی ٹی" پلیٹ فارمز پر "اسکپ ایڈ" کے بٹن کے نیچے دب چکی ہیں۔

کیا تم جانتے ہو کہ آج بھی ہم اپنے بچوں کو وہ پینسل دلواتے ہیں جو بنگلور کی کسی فیکٹری میں بنی ہوتی ہے؟ ہم وہ جوتے پہنتے ہیں جو بنکاک کے بازاروں میں غریب مزدوروں کے پسینے سے سلے گئے۔ کیا ہماری مٹی بانجھ ہوگئی ہے؟ کیا ہمارے ہاتھ محض تسلیم کے لیے پیدا کیے گئے؟ کیا ہماری سوچوں کا مقدر صرف تقلید ہے؟

آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ غیرت کیا ہوتی ہے! غیرت وہ شعلہ ہے جو ہاتھ میں کمان تھما دیتا ہے، جو چھاؤں میں بھی دھوپ جلا دیتا ہے۔ غیرت وہ ظرف ہے جو جاپان کے کھنڈرات سے ٹیکنالوجی کے قلعے کھڑا کرتا ہے۔ غیرت وہ غیر مرئی لہو ہے جو قوموں کے نصیبوں کا رنگ بدل دیتا ہے۔ لیکن تم؟ تم تو "ویزا اپلائیڈ" کے فارم پہ امید باندھنے والی مخلوق ہو، تمہاری غیرت پاسپورٹ کی لائین میں دم توڑ چکی ہے۔

تم کہتے ہو ہم ترقی کر رہے ہیں؟ ہاں، تم نے ترقی کی ہے باہر سے ٹشو منگوا کر اپنے آنسو پونچھنے میں۔ تمھاری دوائیں باہر سے آتی ہیں، تمھارا علم "پی ڈی ایف" فائل میں ڈاؤن لوڈ ہوتا ہے۔ تمھارے ماہرین باہر کی یونیورسٹیوں سے سند یافتہ مگر اندر سے فکری یتیم ہیں۔ تمھارے دانشور وہ گوگل پیج ہیں جو سرچ کے بغیر خاموش رہتے ہیں۔

ذرا رک جاؤ، سنبھل جاؤ، ورنہ وقت کا طمانچہ تمہیں عبرت کے میوزیم کا نمائشی نمونہ بنا دے گا۔ تمھارے بچے فزکس کے پرچے میں نیوٹن کا قانون لکھیں گے مگر گلی میں پڑی اینٹ کو ٹھوکر مار کر جھٹکا بھی نہ سمجھیں گے۔ تمھاری یونیورسٹیاں پراجیکٹ دکھا کر ڈگری دیتی ہیں، مگر قوم کو پروجیکٹ بننے سے بچا نہیں سکتیں۔

کیا تمہیں خبر ہے کہ آج بھی دنیا کی سب سے مہنگی گاڑی کے پرزے جرمنی میں بنے اور ہم نے چنگچی کا ہینڈل بھی چین سے منگوایا؟ تم نے کبھی سوچا کہ کیوں ہمارے سائنسدان نیچرل نیوٹریشن پر لیکچر تو دے سکتے ہیں مگر دیسی انار کا رس پیک نہیں کر سکتے؟ تم نے کب اپنے خمیر میں خودی کا خم تلاشا؟ کب اپنے مٹی کے ذروں سے گلاب اگایا؟ کب اپنے ہاتھوں سے سوئی بنائی؟

جب تمھاری دعاؤں میں بھی مغرب کے ویزے کی قبولیت شامل ہو، تب تمہاری تقدیر خودی کا طواف کیسے کرے گی؟ تم خواب دیکھو مگر ان خوابوں کو فیکٹری کی چمنی بناؤ، تم خیال کرو مگر اسے ایجاد کا چمکتا آلہ بناؤ۔ مگر افسوس، تم تو چائے کی پیالی میں انقلاب تلاش کرتے ہو اور مظاہروں میں بغاوت کی جھلک!

اے قومِ نیم مُردہ، یہ وقت جاگنے کا ہے! اپنی زمین پہ چلنے والے قدموں کو محسوس کرو۔ گلگتی شوقہ، پشاوری چپل، سندھی اجرک اور بلوچی دستکاری کو صرف ثقافت کے فریم میں مت رکھو، انہیں عالمی منڈی کے برانڈ میں ڈھالو۔ فلمیں بناؤ، ایجاد کرو، دوائیں خود بناؤ۔ ڈارون کو نہیں پڑھنا تو نہ پڑھو، مگر اپنا ابنِ آدم ہونا ثابت تو کرو!

ہمیں تھری ڈی فلموں میں حضرت موسیٰ کے دریا کو چیرتے وقت کے اثرات بنانے ہوں گے، مگر پہلے ہمیں اپنی فکری لہروں کو چیرنا ہوگا۔ ہمیں ایڈز کی ویکسین بنانی ہے، مگر پہلے ذہن کی بیماریاں دور کرنی ہوں گی۔ ہمیں مغرب کو "جوشاندہ" کی بوتل میں زندگی کا ذائقہ دینا ہے، مگر پہلے اپنی روح کو تلخ حقائق سے مانوس کرنا ہوگا۔

یاد رکھو، ہم جب تک دوسروں کے جوتے پہن کر اپنی منزل تلاش کریں گے، ہماری ایڑیاں چھلتی رہیں گی۔ جب ہم خود انحصاری کی سلائی سے خودی کا لباس سِلیں گے، تب دنیا ہمیں پہچانے گی اور جب خوداری آئے گی، تب ہم دواؤں کے نام پہ دھوکا دینے والوں کو بتائیں گے کہ شفا، خودی کے قطرے میں چھپی ہوتی ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam