Khamoshi Ki Saleeb Par Latki Hui Zindagi
خاموشی کی صلیب پر لٹکی ہوئی زندگی

یہ زندگی ایک ایسی کشتی ہے جو طوفان کے وسط میں ڈولتی ہے اور ہر سمت سے ضربیں کھا رہی ہے۔ انسان کی بے بسی ایسی تتلی کی مانند ہے جس کے پر کسی سفاک بچے نے نوچ ڈالے ہوں اور اب وہ رینگتے ہوئے رنگوں کی موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہاں جذبات دریا کے کنارے پڑے ان پتھروں کی مانند ہو چکے ہیں جن پر وقت کی موجیں سر پھوڑتی ہیں مگر کوئی نقش باقی نہیں رہتا۔
تم چاہو بھی تو کچھ نہیں کر سکتے، یہاں چاہت کی کوئی بولی نہیں لگتی۔ یہاں ہر آنکھ، ہر دل، ہر احساس خریدار ہے اور خرید و فروخت کی اس منڈی میں صرف وہی قیمتی ہے جس کے پاس طاقت کا سکہ ہو۔ تم جتنے مجبور ہو، اتنے ہی ناقابلِ فہم ہو گئے ہو۔ کسی کو تمہاری ہار کی پروا نہیں، تمہارے آنسو اب گلاب کے پھولوں پر پڑنے والی شبنم کی طرح بے معنی ہو چکے ہیں، جسے سورج کی کرنیں لمحوں میں چاٹ جاتی ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں، کیا میری ذات ہی وہ جرم ہے جس کی سزا میں لمحہ لمحہ کاٹ رہا ہوں؟ کیا میرے دل میں پلنے والے خواب ہی وہ گناہ ہیں جن کے عوض میں یہ کڑی دھوپ میرے حصے آئی؟ میں در و دیوار سے سوال کرتا ہوں، میں راتوں کی تاریکی سے پوچھتا ہوں، میں تنہائی سے گلے ملتا ہوں اور میری ہر پکار صدیوں کی خاموشی میں گم ہو جاتی ہے۔
یہ دنیا ایک میدانِ جنگ ہے، یہاں ہر فرد فاتح بننے کی کوشش میں اپنے ہی جیسے دس انسانوں کو روندنے پر آمادہ ہے۔ انسان کی کامیابی کا پیمانہ دوسروں کی ناکامی ہے اور دوسروں کی فریاد اس کے لیے موسیقی بن چکی ہے۔ طاقتور وہی ہے جو دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر خود کو آسمان کا ستارہ سمجھ بیٹھا ہے۔
ہمدردی یہاں صرف ایک لفظ ہے، جسے لوگ تقریروں میں بولتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بنا دیتے ہیں۔ مگر جب کوئی بے بس انسان اپنا دکھ لے کر کسی دہلیز پر آتا ہے، تو وہاں صرف خاموشی ہوتی ہے۔ وہ خاموشی جو مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں چھپ جاتی ہے، جو دروازوں کے بند ہونے کی آواز میں گم ہو جاتی ہے، جو انسانیت کے کفن پر آخری کیل ٹھونکتی ہے۔
ہمیں بھی دل دیا گیا ہے، ہم بھی سوچ سکتے ہیں، مگر ہماری سوچ کا کوئی مول نہیں۔ ہم وہ درخت ہیں جنہیں بار بار کاٹ کر جلایا جاتا ہے اور پھر انہی کی راکھ سے چائے بنائی جاتی ہے۔ ہم وہ چراغ ہیں جو اندھیرے میں جلتے ہیں، مگر جنہیں کوئی روشنی سمجھنے پر تیار نہیں۔
یہاں ہر طاقتور انسان، ہر ادارہ، ہر حکمراں اپنی کرسی کے پائے مضبوط کرنے کے لیے درجنوں کمزور انسانوں کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ وہ خونِ جگر سے لکھے گئے خوابوں کو کچل دیتا ہے، وہ امیدوں کو زہر میں بجھا دیتا ہے، وہ سانسوں کا مول طے کرتا ہے۔
بے بسی کوئی کیفیت نہیں، یہ تو ایک طرزِ حیات بن چکی ہے۔ ایک ایسی زندگی، جو ہر لمحہ کسی صلیب پر لٹکی رہتی ہے، ہر صبح اپنے لیے قبر کھودتی ہے اور ہر شام اپنے کفن کی سلائی کرتی ہے۔ ہم بھی جیتے ہیں، مگر زندگی صرف گزارنے کا نام نہیں ہوتا۔
میرے دوست، میری تحریر اگر تمہارے دل میں ایک لمحے کو بھی ہلچل پیدا کرے، تو سمجھنا کہ میری بے بسی نے تمہارے شعور کی کھڑکی پر دستک دی ہے۔ کیا ہمیں تھوڑا نہیں سوچنا چاہیے؟ کیا ہر آواز کو بے صدا چھوڑ دینا ہی ہماری انسانیت کا معیار ہے؟ کیا ہم اس قدر اندھے، بہرے اور بے حس ہو چکے ہیں؟
یقیناً، ہم سب میں کہیں نہ کہیں ایک بے بس انسان قید ہے، جو صرف سننا چاہتا ہے، محسوس کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی اسے انسان سمجھے۔

