Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Karachi Barish Teri, Barbadi Hamari

Karachi Barish Teri, Barbadi Hamari

کراچی بارش تیری، بربادی ہماری

کراچی، وہ شہر جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ شہر جہاں کی بندرگاہوں سے ملک کا پیٹ بھرتا ہے، وہ شہر جہاں کی راتیں دن سے زیادہ روشن ہیں اور وہ شہر جسے لوگ خوابوں کا دیس سمجھتے ہیں۔ لیکن ذرا سا آسمان کے دروازے کھل جائیں، بادل مہربانی دکھا دیں اور بارش کا نلکہ چند گھنٹے کھلا رہ جائے تو یہ شہر خوابوں کا نہیں بلکہ "کھڈوں" اور "کھڈوں کے درمیان تیرتے انسانوں" کا دیس بن جاتا ہے۔

آج صبح ٹھیک آٹھ بجے سے دس منٹ پہلے جب کراچی پر رحمت برسی، تو ایک سال کے خشک ہونٹوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، دعائیں کیں اور بچے خوشی سے باہر نکلے کہ چلو آج پارک جائیں گے، جھولے جھولیں گے، بارش میں گیند کھیلیں گے اور لڑکیاں چھتوں پر جا کر تصویریں کھینچیں گی تاکہ انسٹاگرام کی اسٹوریز بھری جا سکیں۔ لیکن بیچاروں کو کیا خبر تھی کہ یہ رحمت دیکھتے ہی دیکھتے زحمت کا وہ سیلاب بنے گی جس میں نہ صرف ان کے جوتے تیریں گے بلکہ ان کے خواب بھی ڈوب جائیں گے۔

پانچ گھنٹے تک یہ بارش اس قدر وفاداری کے ساتھ کراچی کی چھتوں پر برستی رہی کہ شاید اس نے سوچ لیا تھا کہ "کبھی تو اس شہر پر مسلسل برسنے کا حق ادا کروں"۔ لیکن پانچ گھنٹے کے اندر ہی کراچی کا سارا پول کھل گیا۔ شاہراہ فیصل، جو ایئرپورٹ جانے والوں کے لیے لائف لائن سمجھی جاتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے سوئمنگ پول میں بدل گئی۔ نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، لیاقت آباد اور کلفٹن کی وہ گلیاں جو عام دنوں میں ٹریفک جام سے جانی جاتی ہیں، آج پانی کے جماؤ اور لوگوں کے "ڈھکا اسٹارٹ کلچر" سے پہچانی گئیں۔

موٹر سائیکلیں، جو عام دنوں میں کراچی کے لوگوں کے پر ہوتے ہیں، آج پنکھے کے پر کی طرح بے جان ہوگئیں۔ گاڑیاں جنہیں لوگ بڑی شان سے پٹرول ڈلوانے کے بعد سڑک پر نکالتے ہیں، وہی گاڑیاں آج بچوں کے کھلونے کی طرح لوگوں کے دھکوں پر چل رہی تھیں۔ رکشہ ڈرائیورز، جو عام طور پر ہر مسافر کو اپنی سواری کی طرف کھینچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، آج اپنی زندگی بچانے کے لیے رکشہ گھر کھڑا کرنے پر مجبور ہو گئے۔

بارش کے یہ پانچ گھنٹے کراچی کی انتظامیہ کے لیے پانچ صدیوں کے برابر امتحان ثابت ہوئے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی نے امتحان دیا ہو۔ نالے صاف کرنے کے دعوے، ڈرینیج سسٹم کے وعدے، سیوریج بورڈ کے بڑے بڑے منصوبے، سب ایسے غائب ہوئے جیسے بچے اسکول میں ہوم ورک کے بہانے غائب کرتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کا سیوریج سسٹم ایسا ہے جیسے کسی نے بچپن میں کھلونا نلکی سے پانی گزارنے کی کوشش کی ہو۔ پانی آیا، آیا، آیا اور پھر وہیں کھڑا ہوگیا۔

اب یہ کھڑا پانی دو دن، تین دن اور بعض علاقوں میں دو ہفتے تک لوگوں کے گھروں کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ پہلے تو بچے خوشی سے اس میں کھیلتے ہیں، کاغذی کشتیاں چلاتے ہیں اور امی ابو کے منع کرنے پر بھی باز نہیں آتے۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے ہیں، یہی پانی جراثیم، فنگس اور بیکٹیریا کی نرسری بن جاتا ہے۔ مچھروں کی افزائش کا یہ مرکز ڈینگی اور ملیریا کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یوں رحمت کی چند بوندیں لوگوں کی جان کے دشمن بن کر ان کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔

اب ذرا سوچیں، کچی آبادیوں کے وہ معصوم بچے جو سارا دن گلیوں میں کھیلتے ہیں، جن کے پاس کھیلنے کے لیے پارک نہیں، جھولے نہیں، میدان نہیں، وہ بارش کے اس پانی میں نہ صرف کھیلیں گے بلکہ اسی پانی کو سانسوں کے ذریعے اپنے جسم میں اتاریں گے۔ بدقسمتی سے وہی بچے سب سے پہلے بیماریوں کی لپیٹ میں آئیں گے اور ان کے ماں باپ، جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے سڑکوں پر محنت کرتے ہیں، ان کے علاج کے لیے دھکے کھاتے رہیں گے۔

ادھر حکومت کے وزراء اور بلدیاتی نمائندے ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر ایسے بیان دیں گے جیسے یہ بارش ان کے سیاسی مخالفین نے کروائی ہو۔ کوئی کہے گا: "یہ بارش غیر معمولی تھی، اس کے لیے تیاری ممکن نہیں تھی"۔ دوسرا کہے گا: "نالوں کی صفائی کا کام تو شروع کیا تھا، مگر بارش نے ہمیں موقع نہیں دیا" اور تیسرا ہنستے ہوئے کہے گا: "الحمدللہ ہم نے شہر کو بچا لیا ہے"۔ گویا شہر کے باسی اندھے ہیں اور انہیں نظر نہیں آتا کہ وہ کس طرح پانی میں ڈوب رہے ہیں۔

طنز کی انتہا تو یہ ہے کہ جس شہر میں لوگ فیس بک پر بارش کی تصویریں ڈال کر لائکس لینے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، وہی لوگ بارش کے بعد "واٹر بورڈ" اور "بلدیہ" کو برا بھلا کہہ کر اپنا دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ مسئلہ صرف طنز اور گالیوں سے حل نہیں ہوگا۔ جب تک شہر کے انفراسٹرکچر میں عملی تبدیلی نہیں ہوگی، ہر سال یہ بارش اسی طرح بربادی کی کہانی لکھتی رہے گی۔

کراچی کی آبادی کروڑوں میں ہے، لیکن سہولتیں لاکھوں میں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ گٹر کا نظام ایسا ہے جیسے کسی نے دو روپے کی پائپ لائن لگا کر بیس کروڑ لوگوں کو جکڑ دیا ہو۔ سڑکیں ایسی ہیں جیسے بارش سے پہلے ہی "گڑھوں کا جغرافیہ" بنی ہوئی ہوں اور بارش ہوتے ہی یہ گڑھے پانی کے تالاب بن جاتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر تو یہ گڑھے اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ آدمی سوچنے لگتا ہے کہ شاید یہ کراچی کے بجائے کوئی سمندری غوطہ خوری کا مقام ہے۔

پھر سب سے دلچسپ منظر وہ ہوتا ہے جب لوگ اپنی گاڑیوں کو دھکا لگا رہے ہوتے ہیں۔ ایک شخص گاڑی کے اسٹیئرنگ پر، تین چار پیچھے سے دھکا لگا رہے ہیں اور آس پاس سے گزرنے والے لوگ مزے لے لے کر دیکھ رہے ہیں، کوئی ویڈیو بنا رہا ہے تو کوئی ہنستے ہنستے ڈھول پیٹ رہا ہے۔ یہ کراچی کے عوام کا مزاج ہے، ہر مصیبت کو ہنسی مذاق میں بدل دیتے ہیں۔ لیکن اس ہنسی کے پیچھے ایک کڑوا سچ ہے: کہ ان کی زندگیوں کی کوئی وقعت نہیں، ان کی پریشانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اگر بارش سے پہلے ہی شہر کا سیوریج صاف کر لیا جائے، اگر سڑکوں کی منصوبہ بندی عقل و دانش سے کی جائے، اگر نالوں پر قبضے ختم کیے جائیں، تو کیا یہ شہر بہتر نہیں بن سکتا؟ بالکل بن سکتا ہے۔ لیکن کون بنائے؟ وہ حکمران جو اپنی پجیرو گاڑیوں میں پانی کو چھینٹتے ہوئے گزر جاتے ہیں؟ یا وہ وزراء جو ہر آفت کے بعد امداد کے نام پر نئی کمیٹی بناتے ہیں اور چند دن بعد سب بھول جاتے ہیں؟

یہ شہر زندہ دل ہے، اس کے لوگ محنتی ہیں، لیکن افسوس کہ یہ شہر ہمیشہ بدانتظامی کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے۔ بارش کے بعد سڑکوں پر کھڑا پانی صرف پانی نہیں ہوتا، یہ حکمرانوں کی نااہلی، کرپشن اور مجرمانہ غفلت کا گواہ ہوتا ہے۔

رحمت کی بارش، جو اصل میں زندگی کا پیغام ہوتی ہے، کراچی کے لیے عذاب کی علامت بن گئی ہے اور اس کا ذمہ دار کوئی آسمان نہیں، کوئی بادل نہیں، بلکہ وہ زمین ہے جس پر ایسے لوگ قابض ہیں جنہیں شہر سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam