Kaba Bech Diya Tum Ne
کعبہ بیچ دیا تم نے

بازار میں شور ہے اور شور میں ایک دھیمی سی آہ دبی ہے، فلسطینی ماں کی، جو اپنے لال کا کفن لپیٹے آنکھیں خشک کیے بیٹھی ہے۔ نہ کوئی مجمع، نہ کوئی صفِ ماتم۔ کیونکہ بازار میں آج بولی کسی اور کی لگی ہے، اسلامی تعلیمات کی، وحدتِ امت کی اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی۔ تماشائی کوئی اور نہیں، بلکہ وہی ہیں جو کبھی قبلۂ اوّل کی آزادی کے نعرے لگاتے تھے۔ وہی مملکتیں، جو خود کو دینِ محمدی کا قلعہ سمجھتی تھیں۔ آج وہی ریاستیں سامراجی منصوبوں کا حصہ ہیں اور ان کی مسجدوں کے مینار عالمی معاہدات کی دھواں دھار فائلوں میں دفن ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب، جو کبھی حرمین شریفین کا نگہبان سمجھا جاتا تھا، آج "نیو ریاض" اور "ویژن 2030" کے خمار میں گم ہے۔ معاشی ترقی کے نام پر وہاں موسیقی کے کنسرٹس، فیشن شوز اور سنیما گھروں کی بحالی کو اسلامی تہذیب کی نئی تعبیر کہا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے امریکہ سے 110 بلین ڈالر کے اسلحہ کے معاہدے کیے، جن میں سے بڑی رقم ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں طے پائی۔ اسی دور میں سعودی شاہی خاندان نے ٹرمپ کو اربوں ڈالر کے تحائف، سونے کے ہار، بیش قیمت تلواریں اور ثقافتی نوادرات پیش کیے۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب تجارت نے عقیدے پر فتح پائی اور امت مسلمہ کا قبلہ واشنگٹن کی جانب مڑ گیا۔
قطر، جو الجزیرہ جیسے مؤثر میڈیا نیٹ ورک کا بانی ہے، آج عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدات کے ذریعے خود کو "پیس میکر" ظاہر کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوحہ کے وہی ہوٹل ہیں جہاں اسرائیلی خفیہ نمائندے حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی معلومات خریدتے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، قطر نے 2022 سے اب تک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی، تعلیمی اور تجارتی معاہدوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ قطر کا "مذہبی چہرہ" درحقیقت ایک باریک نقاب ہے، جس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی وفاداری پوشیدہ ہے۔
ترکی، جو خود کو خلافتِ عثمانیہ کا وارث سمجھتا ہے، اسرائیل سے اپنے تجارتی روابط بڑھا رہا ہے۔ 2023 میں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تقریباً 9 ارب ڈالر کی تجارت کی، جن میں دفاعی آلات، ٹیکنالوجی اور زرعی مصنوعات شامل تھیں۔ صدر اردوان کی حکومت ایک طرف فلسطینی عوام کے لیے بیان بازی کرتی ہے، تو دوسری طرف اسرائیلی کمپنیوں کو استنبول میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتی ہے۔ ایسے میں "مظلوموں کا حمایتی" بننا محض ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔
جب اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملے کیے، تو سعودی عرب "خاموش سفارتکاری" کے پردے میں چھپا رہا، قطر نے "تشویش کا اظہار" کرکے جان چھڑائی اور ترکی نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرکے اپنی سیاسی اداکاری پوری کی۔ لیکن ان سب کے درمیان نہ کوئی عملی قدم اٹھا، نہ کوئی سفیر واپس بلایا گیا اور نہ ہی کسی اسرائیلی کمپنی کا بائیکاٹ ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ فلسطین اب صرف ایک نعرہ ہے، جسے سیاسی جلسوں میں استعمال کرکے ووٹ اور مفاد حاصل کیے جاتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا مرکز کہلانے والے یہ ممالک اب "اسلامی سرمایہ داری" کے نمائندہ بن چکے ہیں۔ جہاں نماز کے بعد سودی بینکوں کے افتتاح ہوتے ہیں اور روزہ داروں کے ملک میں عیاشی کی راتیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ وہی سعودیہ ہے جس نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو "عصرِ جدید کی ضرورت" قرار دیا اور وہی قطر ہے جس نے غزہ میں تباہی کے بعد بھی اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ اپنے گیس کے معاہدے جاری رکھے۔ ترکی نے اسرائیلی صدر کو خوش آمدید کہہ کر فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا اور پھر اقوامِ عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بیانات دیے۔ کیا یہ سب منافقت نہیں؟
ٹرمپ، جو اپنے دورِ صدارت میں مسلمانوں کو "دہشت گرد" اور "مسئلہ" قرار دیتا رہا، اس نے اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے سعودی عرب، قطر اور ترکی سے خفیہ امداد حاصل کی۔ "امریکی انٹیلیجنس رپورٹ 2020" کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک سے غیر رسمی گفٹز اور تعاون حاصل کیا، جن میں قیمتی جواہرات، سرمایہ کاری کے وعدے اور خاندان ٹرمپ کی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے والے معاہدے شامل تھے۔ یہی وہ تعاون تھا جس نے "ابراہام اکورڈ" جیسے معاہدوں کو تقویت دی اور اسرائیل کی مشرقِ وسطیٰ میں حیثیت کو قانونی جواز بخشا۔
اسلام کا پیغام وحدت، عدل اور مظلوم کی حمایت پر مبنی ہے، مگر ان ریاستوں نے مذہب کو صرف ایک برانڈ میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہی کعبہ، جہاں سے صدیوں پہلے مظلوموں کے حق میں آواز بلند ہوئی، آج سرمایہ دارانہ تقریبات کا مرکز بن چکا ہے۔ حرم کی دیواریں شاید آج بھی پوچھتی ہوں گی کہ "کیا یہی وہ امت ہے، جس نے نبی کے فرمان کو دنیا میں عدل کا معیار بنانا تھا؟"
مگر اب یہاں نہ عدل ہے، نہ غیرت، نہ حمیت۔ یہاں صرف معاہدے ہیں، بولیاں ہیں اور مصلحتوں کی ایسی چادریں ہیں جن سے خون کی بوندیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔
یہ تحریر چیخ ہے اُن بچوں کی، جو ملبے تلے دب کر مر گئے۔ یہ آہ ہے اُس بوڑھی ماں کی، جس نے پانچ شہید جنازے دفنائے۔ یہ سوال ہے اُس اُمت سے، جو اعداد و شمار تو یاد رکھتی ہے، مگر ضمیر کا حساب دینا بھول چکی ہے۔
ختم کرنے سے پہلے صرف اتنا کہنا کافی ہے: اگر مقدس سرزمینیں بھی اب منڈی میں بدل چکی ہیں، تو پھر شاید بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں، بلکہ ایک نیا خریدار درکار ہوگا، جو بولی نہیں دے گا، بلکہ لہو کے بدلے حق واپس لے گا۔

