Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Jang Ke Tajir Ka Aman Ka Raag

Jang Ke Tajir Ka Aman Ka Raag

جنگ کے تاجر کا امن کا راگ‎

دنیا کی خاک پر بکھری انسانیت کی چیخیں اگر کسی کو سنائی نہ دیں، تو وہ یا تو اندھا ہے، یا پھر امریکہ جیسا سپر پاور۔ جنگ کے میدانوں میں گرتے لاشے، معصوم بچوں کی چیخیں اور تہذیبوں کے ملبے پر جو طاقت مسکرا رہی ہوتی ہے، وہ ہمیشہ وہی طاقت ہے جو اپنی معیشت کو خون کی بنیادوں پر کھڑا رکھتی ہے۔ امریکہ ایک نظریہ نہیں، ایک منصوبہ بند عالمی حکمتِ عملی ہے، جو جنگ کو امن کے لبادے میں بیچتا ہے اور اسلحہ کو سفارتکاری کی زبان سمجھتا ہے۔

امریکہ کا نظامِ معیشت عسکری بنیادوں پر قائم ہے۔ پینٹاگون، سی آئی اے اور نیٹو جیسے ادارے نہ صرف سیکیورٹی ادارے ہیں بلکہ اصل میں اسلحے کے بڑے تاجر ہیں۔ سنہ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے صرف ایک سال میں 206 بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ برآمد کیا۔ ان میں زیادہ تر فروخت مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ میں جاری یا ممکنہ جنگوں کے حوالے سے کی گئی۔ دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے 51 صرف امریکہ میں قائم ہیں اور ان میں Lockheed Martin"، "Raytheon"، "Northrop Grumman اور "Boeing" سرفہرست ہیں، جن کے شیئرز جنگی خبروں کے ساتھ ہی آسمان چھونے لگتے ہیں۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون "تقسیم کرو، حکومت کرو" کی جگہ "لڑاؤ، اسلحہ بیچو" بن چکا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ ہو یا ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت، بھارت اور پاکستان کی کشیدگی ہو یا روس اور یوکرائن کی لڑائی، امریکہ ہر جگہ ایک فریق کا ہمدرد اور دوسرے کا دشمن بن کر، دونوں کو اسلحہ فروخت کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کو جدید میزائل ڈیفنس سسٹم دے کر فلسطین کو دہشت گرد قرار دینا، بھارت کو F-16 دینے کی بات کرکے پاکستان پر دباؤ ڈالنا، یوکرائن کو اسلحے سے لیس کرنا اور روس کو پابندیوں میں جکڑنا، یہ سب ایک ہی تسلسل کی کڑیاں ہیں، جہاں امریکہ کبھی خود جنگ کا حصہ بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو لڑوا کر پیچھے بیٹھ کر فائدہ اٹھاتا ہے۔

افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن اور ایران جیسے ممالک کی کہانی خون سے لکھی گئی تاریخ ہے۔ افغانستان میں مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف تیار کیا گیا، اسلحہ دیا گیا اور پھر انہی کو دہشت گرد قرار دے کر دو دہائیوں تک جنگ جاری رکھی گئی۔ عراق میں کیمیکل ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر ایک مکمل ملک تباہ کیا گیا، جب کہ بعد میں یہی مانا گیا کہ کوئی ہتھیار موجود ہی نہ تھے۔ لیبیا میں قذافی کے خلاف بغاوت کی حمایت کرکے ملک کو قبیلوں میں بانٹ دیا اور شام میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت کی آڑ میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی، حتیٰ کہ داعش جیسی تنظیمیں امریکہ کی چھتری تلے وجود میں آئیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 2001 سے 2023 کے درمیان امریکہ نے 93 مختلف ممالک کو عسکری امداد اور اسلحہ دیا، جن میں سے اکثر ممالک یا تو براہ راست جنگ کا حصہ تھے یا خانہ جنگی کا شکار۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2010 سے 2020 کے درمیان 800 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی، جس کا مقصد بظاہر دفاع تھا، لیکن درحقیقت یہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع کا ذریعہ تھا۔

امریکہ کی جنگی حکمتِ عملی صرف بارود کی نہیں، بلکہ میڈیا، معیشت اور سفارتکاری کی مثلث پر قائم ہے۔ CNN، Fox News اور دیگر ادارے جنگی فضا ہموار کرتے ہیں، ہالی ووڈ فلموں میں امریکی فوجی ہیرو بنتے ہیں، اقوامِ متحدہ میں قراردادیں امریکہ کے مفاد میں ڈھالی جاتی ہیں اور معاشی دباؤ کے ذریعے اقوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے اسلحہ خریدیں یا اس کے ساتھ دفاعی معاہدے کریں۔ ایک غریب ملک، جب قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہے، تو اسے کہا جاتا ہے کہ تمہاری سلامتی کے لیے امریکہ کے ہتھیار ضروری ہیں۔

امن کے نعرے اگر جنگ کی بنیاد پر لگائے جائیں، تو وہ نعرے امن کے نہیں، تجارت کے ہوتے ہیں۔ امریکہ نے کبھی بھی کسی جنگ کو مکمل ختم نہیں کیا، بلکہ اسے "کنٹرولڈ کیوس" یعنی قابو میں رکھی گئی افراتفری میں بدلا ہے، تاکہ جنگ جاری رہے، لیکن اتنی نہ بڑھے کہ خود امریکہ اس کی لپیٹ میں آ جائے۔ یہ پالیسی ایک نشے کی مانند ہے، جہاں جنگ بھی ضروری ہے اور اس کا کنٹرول بھی۔ اسلحہ بکتا رہے اور امریکہ دنیا کے "رکھوالے" کا نقاب اوڑھے رہے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی کشیدگی بڑھی، امریکہ نے دونوں سے بات کی، دونوں کو ہتھیار دیے اور دونوں کو ڈرا کر اپنا اثر بڑھایا۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کو امریکہ نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کو ایندھن دیا، تاکہ دونوں ملک اسلحے کے خریدار بنے رہیں۔ ریشاء اور یوکرائن کی جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جہاں یوکرائن کو اسلحہ دے کر روس کو بھڑکایا گیا اور نیٹو کو مضبوط کرنے کے لیے ماحول تیار کیا گیا۔

یہ سب ایک ایسا شیطانی چکر ہے، جس میں امریکہ دنیا کی بدامنی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور امن کا علمبردار بننے کا ڈرامہ رچاتا ہے۔ امریکہ کی طاقت کا راز نہ اس کے آئین میں ہے، نہ اس کی جمہوریت میں، بلکہ اس کے اسلحے میں ہے اور جب تک دنیا میں جنگ باقی ہے، امریکہ کا بازار گرم ہے۔

اگر دنیا کو واقعی امن چاہیے، تو اسے صرف دہشت گردوں سے نہیں، بلکہ ان سے بھی لڑنا ہوگا جو دہشت گردی کو فروغ دینے والے ہیں، جو جنگ کو پالنے والے ہیں اور جو امن کے نعرے کے ساتھ بارود بیچتے ہیں۔ اصل مجرم وہی ہے جو بندوق دیتا ہے، چاہے گولی کوئی اور چلائے۔ امریکہ اگر واقعی امن چاہتا، تو اس کا سب سے پہلا قدم اسلحہ فروخت بند کرنا ہوتا۔ لیکن جب اسلحہ ہی معیشت ہو، تو امن صرف ایک جھوٹا نعرہ بن جاتا ہے، جو خون میں بھیگے پرچم کے نیچے بلند کیا جاتا ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan