Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Jamhuriat Ka Janaza Aur Establishment Ke Paale Hue Shehzade

Jamhuriat Ka Janaza Aur Establishment Ke Paale Hue Shehzade

جمہوریت کا جنازہ اور اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے شہزادے‎

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک ایسا داغ ہے جسے جمہوریت کا رومال بھی چھپا نہیں سکتا۔ یہاں جمہوریت کا چولا پہن کر آمریت کی ننگی رقص کرتی ہے اور آئین کی کتاب محض کاغذی فائل بن کر الماریوں میں سسکتی رہتی ہے۔ ہمارے یہاں ووٹ عوام کا، مگر فیصلہ طاقتوروں کا ہوتا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں دستور کے الفاظ تو "اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہے" کہہ کر جھومتے ہیں، مگر حقیقت میں فیصلے بند کمروں، وردی پوشوں اور ایجنسیوں کی مشاورت سے طے پاتے ہیں۔

ذرا ماضی کی بھولی بسری گلیوں میں جھانکیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر جمہوری بیج، فوجی بوٹوں تلے روندا گیا۔ 1953ء میں ہی گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئینی حکومت کا تختہ الٹا۔ 1958ء میں ایوب خان آئے اور یوں سیاست کے سینے پر پہلا مارشل لا بٹھایا گیا۔ اس کے بعد جیسے "طاقت کا نشہ" وردی والوں کے خون میں گھل گیا۔ پھر یحییٰ خان، پھر ضیاء الحق، پھر پرویز مشرف، ہر کوئی آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر آیا اور عدالتوں نے ہمیشہ "نظریہ ضرورت" کا جھنڈا اٹھا کر ان اقدامات کو سندِ جواز عطا کی۔

ذوالفقار علی بھٹو، وہ شخص جو ایوب خان کی گود میں سیاسی بلوغت کو پہنچا، بعد میں اپنے خالق ہی کے خلاف نعرہ زن ہو کر عوامی لیڈر بنا۔ مگر 1977ء میں اس کے اقتدار کا تختہ بھی ایک جرنیل نے ہی الٹا اور عدلیہ نے اس عدالتی قتل کو "قانونی" کہہ کر تاریخ کو سیاہ کر دیا۔ ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ سیاہ دور میں مذہب کے نام پر سیاست کی ایسی زنجیر بنائی جو آج تک ہمارے سماجی گلے میں جکڑی ہوئی ہے۔

اور پھر نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ کے گود میں پل کر جوان ہونے والا وہ شہزادہ، جسے جنرل جیلانی نے دریافت کیا اور ضیاء نے پال پوس کر آگے بڑھایا۔ وہی نواز جب خودمختاری کی بات کرنے لگا، تو جنرل مشرف کی چھڑی نے اسے "ہائی جیکر" کہہ کر ملک بدر کر دیا۔ لیکن تقدیر کا چکر دیکھیے، یہی نواز شریف جب دوبارہ آیا، تو اسی عدلیہ کو "انقلابی" کہا جو کل تک اس کے خلاف فیصلے دے رہی تھی اور آج؟ یہی نواز شریف جب اسٹیبلشمنٹ سے چِھنا، تو "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لے کر نکلا اور جب دوبارہ اسی اسٹیبلشمنٹ نے گود میں جگہ دی، تو اس نعرے کو خود اپنے جوتے تلے روند ڈالا۔

بے نظیر بھٹو بھی کچھ کم نہ تھیں۔ فوجی آمریت کی مخالفت کا علم تھامے، جب وہ اقتدار میں آئیں، تو عسکری قیادت کے ساتھ مفاہمت کی راہیں تلاش کرنے لگیں۔ یہ وہی سیاست ہے جو اصولوں سے نہیں، مفادات سے جنم لیتی ہے۔

سن 2008ء کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے "میثاقِ جمہوریت" کے نام پر باری باری اقتدار بانٹا، مگر کرپشن، اقربا پروری اور ادارہ جاتی تباہی کا بازار گرم رکھا۔ پیپلز پارٹی نے قومی خزانے کو بھینس سمجھ کر دوہا اور نون لیگ نے اسے خاندانی جاگیر جانا۔

پھر میدان میں اتری تحریکِ انصاف، جو تبدیلی کا دعویٰ لے کر آئی۔ مگر جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ تبدیلی محض چہرے کی تھی، نظام وہی گلا سڑا۔ عمران خان، جو کل تک عسکری مداخلت کو لعنت کہتا تھا، اسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر وزیراعظم بنا۔ جنرل فیض حمید کی جادوگری اور باجوہ صاحب کی خاموش سرپرستی نے اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔ مگر جب پی ٹی آئی نے عسکری پالیسیوں سے اختلاف کی جرأت کی، تو یوں گرا دیا گیا جیسے مٹی کا کھلونا ہو۔

2022ء میں ایک بار پھر وہی پرانے چہرے، وہی ناپاک اتحاد اور وہی کٹھ پتلی حکومت بنائی گئی، جس کا ایجنڈا عوام کی فلاح نہیں بلکہ عمران دشمنی تھا۔ آئین، الیکشن، شفافیت، سب کچھ پسِ پشت ڈال کر، طاقت کے نشے میں چور لوگوں نے "سول سپرمیسی" کا مذاق اڑایا۔

مریم نواز، جو کل تک "چند جرنیلوں" کو قوم کا مجرم کہتی تھیں، آج انہی کی چھتری تلے "وارثت" کا تاج پہننے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ یا خاندانی بادشاہتوں کا تسلسل؟ نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے، شہباز شریف دو بار، اب بیٹی کی باری، تو کیا یہ عوامی نمائندگی ہے یا سلطنتِ شریفیہ کا تسلسل؟

آج اس ملک میں جمہوریت کی مثال اُس خیمے جیسی ہے، جس کی ہر طناب فوجی بوٹوں سے بندھی ہو اور ہر ستون پر کرپٹ سیاستدانوں کا قبضہ ہو۔ عوام اُس مجمع کی مانند ہیں جو صرف تماشہ دیکھتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور پھر اگلے انتخابات میں انہی چہروں کو ووٹ دیتے ہیں۔

جمہوریت کے اس جنازے پر ماتم واجب ہے۔ ماتم اس لیے کہ یہاں انتخابی اصلاحات پر بحث نہیں ہوتی، اداروں کی خودمختاری کو چیلنج نہیں کیا جاتا، بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا کون ہے۔

عوام، جنہیں انگریز دور میں "رعایا" کہا جاتا تھا، آج بھی ویسے ہی بے بس ہیں۔ آٹا، بجلی، پانی، صحت، تعلیم، سب کچھ نایاب ہے۔ مگر سیاستدانوں کے محلات چمک رہے ہیں، ان کے بچوں کی شادیاں دبئی، لندن اور نیویارک میں ہو رہی ہیں اور عوام؟ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی حکمرانوں کی جھوٹی "ریلیف اسکیموں" کے محتاج ہیں۔

اس تحریر کے اختتام پر فقط ایک سوال رہ جاتا ہے:

کیا ہم واقعی جمہوریت چاہتے ہیں؟

یا صرف نام کی جمہوریت، جو اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پر ناچتی رہے اور عوام محض تالیاں بجاتے رہیں؟

اگر یہ ملک بچانا ہے، تو ہمیں صرف چہرے نہیں، نظام بدلنا ہوگا۔

وگرنہ ہر پانچ سال بعد، ہم نئے چہروں کے ساتھ وہی پرانا تماشہ دیکھتے رہیں گے اور جمہوریت کا جنازہ شان سے نکلتا رہے گا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali