Thursday, 27 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Jadeed Ejadat Ki Daur Aur Pakistan

Jadeed Ejadat Ki Daur Aur Pakistan

جدید ایجادات کی دوڑ اور پاکستان‎

کسی بھی قوم کی ترقی کا پیمانہ اس کے سائنسی شعور، تحقیقی مزاج اور ایجادات کی رفتار سے ماپا جاتا ہے۔ آج دنیا میں وہی اقوام سبقت لے جا رہی ہیں جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، بایومیڈیکل انجینئرنگ، روبوٹکس اور بایونانوتکنالوجی جیسے شعبے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اور طاقت کا بنیادی ستون بن چکے ہیں۔ امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی جیسے ممالک تحقیق و ترقی (R&D) پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں نت نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا حال دیکھیں تو ہمارے تعلیمی و تحقیقی ادارے مسلسل زوال کا شکار ہیں اور سائنسی ترقی میں ہمارا شمار پسماندہ اقوام میں ہوتا ہے۔

پچھلی چند دہائیوں میں دنیا نے سائنسی ترقی کے میدان میں بے مثال پیش رفت کی ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) نے انسانوں کی روزمرہ زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ خودکار مشینیں، ذہین روبوٹس اور ڈیپ لرننگ الگورتھمز وہ چیزیں ہیں جو کسی زمانے میں صرف خیالی تصور کی جاتی تھیں، مگر آج حقیقت بن چکی ہیں۔ ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک (Neuralink) انسانی دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے تجربات کر رہی ہے، تاکہ انسان براہ راست اپنے خیالات سے مشینوں کو کنٹرول کر سکیں۔ بوسٹن ڈائنامکس (Boston Dynamics) کے روبوٹس اتنے جدید ہو چکے ہیں کہ وہ انسانوں کی طرح بھاگ سکتے ہیں، سامان اٹھا سکتے ہیں اور پیچیدہ کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

طب کے میدان میں جینیاتی ترمیم (CRISPR-Cas9) کے ذریعے ایسی بیماریاں ختم کی جا رہی ہیں جو پہلے ناقابلِ علاج سمجھی جاتی تھیں۔ بایومیڈیکل انجینئرنگ کی بدولت مصنوعی اعضاء بنائے جا رہے ہیں جو انسانی جسم سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ، جو روایتی کمپیوٹنگ کے مقابلے میں لاکھوں گنا زیادہ تیز ہے، ڈیٹا انکریپشن اور پیچیدہ سائنسی مسائل کے حل میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ اسپیس ایکس (SpaceX) جیسے ادارے چاند اور مریخ پر بستیاں بسانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

یہ تمام ایجادات دنیا کے ان ممالک کی بدولت ممکن ہوئیں جو تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ چین نے گزشتہ دس سالوں میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ناقابلِ یقین ترقی کی ہے۔ ہواوے، علی بابا اور بیدو جیسی کمپنیاں مصنوعی ذہانت اور بگ ڈیٹا میں لیڈ کر رہی ہیں۔ بھارت کا ISRO (Indian Space Research Organisation) چاند اور مریخ پر کامیاب مشنز بھیج چکا ہے۔ مگر افسوس کہ پاکستان اس دوڑ میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان میں سائنسی تحقیق کا حال مایوس کن ہے۔ یہاں تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز جدید آلات اور سہولیات سے محروم ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تحقیق محض مقالے لکھنے اور ڈگری حاصل کرنے تک محدود ہو چکی ہے۔ بیشتر طلبہ تحقیق کو بوجھ سمجھتے ہیں اور جو تحقیق ہوتی بھی ہے، وہ اکثر دوسرے ممالک کے پرانے نظریات کی نقل پر مبنی ہوتی ہے۔

سپارکو (SUPARCO)، جو پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ ہے، اپنے قیام کے کئی دہائیوں بعد بھی ابتدائی مراحل میں پھنسا ہوا ہے۔ بھارت کا ISRO خلائی جہاز چاند اور مریخ پر پہنچا چکا ہے، جبکہ ہم اب تک جدید سیٹلائٹ لانچنگ میں پیچھے ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسی بڑی ایجاد یا ٹیکنالوجی نہیں جو عالمی سطح پر ہماری پہچان بنی ہو۔ پاکستانی جامعات کے تحقیقی مقالے عالمی درجہ بندی میں کم ہی نظر آتے ہیں اور ان میں سے بیشتر محض رسمی مقالے ہوتے ہیں جن میں کوئی انقلابی تحقیق شامل نہیں ہوتی۔

پاکستان کا تعلیمی نظام بھی سائنسی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہاں سیکھنے کے بجائے رٹے بازی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ طلبہ کو تنقیدی سوچ اور مسائل حل کرنے کی مہارت سکھانے کے بجائے صرف نصاب مکمل کرایا جاتا ہے۔

زیادہ تر طلبہ کا مقصد ڈگری لینا اور نوکری تلاش کرنا ہوتا ہے، جس کے باعث وہ تحقیق کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ جو طلبہ تحقیق کرنا بھی چاہتے ہیں، انہیں سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ لیبارٹریز میں جدید آلات نہیں، تحقیقی فنڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے اور پروفیسرز بھی روایتی طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔

تحقیقی اداروں میں اقربا پروری اور سیاسی مداخلت بھی عام ہے۔ کسی محقق کو اگر واقعی کوئی جدید تحقیق کرنی ہو تو اسے بیرونِ ملک جانا پڑتا ہے اور نتیجتاً پاکستان اپنے قابل ترین دماغوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ جو ذہین سائنسدان اور انجینئر بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، وہ دوبارہ پاکستان واپس نہیں آتے کیونکہ یہاں ان کے لیے کوئی تحقیقی ماحول موجود نہیں۔

جدید دنیا میں ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کا فروغ ناگزیر ہے، مگر پاکستان میں یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہاں کوئی ایسی مقامی کمپنی نہیں جو جدید اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، یا دیگر ہائی ٹیک مصنوعات تیار کر رہی ہو۔ ہماری گاڑیاں، طبی آلات، دفاعی ٹیکنالوجی اور حتیٰ کہ روزمرہ استعمال کی مشینیں بھی زیادہ تر دوسرے ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔

پاکستان کے پاس مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، یا بایوٹیکنالوجی کے شعبوں میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں۔ ہمارے ہاں اسٹارٹ آپ کلچر بھی کمزور ہے۔ جن چند کمپنیوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کی، انہیں حکومتی عدم توجہی اور مالی وسائل کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اگر پاکستان نے سائنسی ترقی کو سنجیدہ نہ لیا تو آنے والے سالوں میں ہمارا عالمی منظرنامے پر کوئی کردار نہیں ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے آنے والے دور میں جو ممالک سائنسی تحقیق میں پیچھے رہ گئے، وہ صرف صارف (consumer) بن کر رہ جائیں گے۔ وہ دوسروں کی ایجادات خریدیں گے، مگر خود کچھ نیا تخلیق نہیں کر سکیں گے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مستقبل کی جنگیں اور معیشتیں سائنس اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہوں گی۔ جو ملک مصنوعی ذہانت، بایوٹیکنالوجی اور خلائی تحقیق میں برتری حاصل کر لے گا، وہی دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ اگر پاکستان نے اب بھی سائنسی میدان میں سرمایہ کاری نہ کی، تو ہم ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہیں گے۔

پاکستان میں سائنسی انقلاب لانے کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:

تعلیم میں اصلاحات: نصاب کو جدید سائنسی علوم سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور طلبہ کو تنقیدی سوچ اور مسائل حل کرنے کی مہارت دی جائے۔

تحقیقی فنڈنگ میں اضافہ: حکومت کو تحقیق و ترقی (R&D) کے لیے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ سائنسدانوں اور محققین کو سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

جدید لیبارٹریز کا قیام: یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں جدید آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کرنی ہوگی تاکہ جدید ایجادات کی راہ ہموار ہو۔

ٹیکنالوجی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی: مقامی سطح پر ٹیک کمپنیوں کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان بھی عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔

پاکستان کو اگر عالمی سطح پر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے تو اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ تحقیق اور ایجادات کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مستقبل میں پاکستان ایک صارف قوم بن کر رہ جائے گا، جو دوسروں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی پر انحصار کرے گا اور خود کچھ ایجاد نہیں کر سکے گا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Fast Food, Sarmaya Darana Nizam Ka Hathkanda

By Irfan Javed