Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. Jab Khudari Aaye Gi

Jab Khudari Aaye Gi

جب خوداری آئے گی

میں دائرہ نفرت سے نکل چکا ہوں۔ تذبذب ہے نا جھجک کیونکہ میری روح اتصالِ بالنفس ہے۔ میری آرزو دل کی آواز پر لبیک کہتی ہے۔ میں اتمامِ حجت کر چکا کہ میں فکری غلام بن کے نہیں جی سکتا خودداری کو خود انحصاری کے ذریعہ اپنی ذات میں مستقر کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہ انقلابی نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ انقلابی ہوں جو ذوق میں انقلاب لانا چاہتا ہوں۔ یہ ذوق کرنِ صبحِ عشق قرار پائے اور انہامِ زمن کے خلاف میری آواز بن جائے۔

میں نے خوشنما جامِ ہوس کو نیلام ہوتے دیکھا ہے، میں نے ادب و ہنر کے نام پہ ناکامی کے نسخے دیکھے ہیں، میں نے بیت المال کو اثاث البیت سمجھ کر نوش کرتے دیکھا ہے۔ میں نے نیمِ مرگِ بدنِ ملت کو اندھی تقیلد کی خباثت میں گرے دیکھا ہے۔

یہاں کی سوچ ضیعف ہے، یہاں پسِ دیوار کی باتیں زن کی زبان سے نکلتے دیکھا۔ اخبث لوگ کو یہاں مُدرس اخلاق بنتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ تاجر جدید نسخےِ تجارت کی کھوج میں ہے۔ ملا کو بھی زلفِ حور میں گرفتار دیکھا ہے۔ میں نے سرِ راہ دیکھا کہ بیروزگار اخترِشناس بنا بھیٹہ ہے اور صاحبِ فن روزگارِ زیست کے لیے تماشا بنا پھرتا ہے۔

میں تو اختلاج ِدل کا شکار نہیں۔ میں ناکامی کے نسخوں کو جلادوں گا۔ خاموش نہیں رہونگا۔ میں تمھیں قتل کر ڈالوں گا۔ میں تمھارے قبر پہ اُم الخبائث لکھ دونگا۔ تمھاری کھوٹی پہ پلنے والوں کی اپنی دیس میں کھوٹیاں ہیں۔ ہتکِ عزت کا الزام در لو! میں نے ظاہری لباس کے ساتھ تمھیں برہنہ کیا ہے۔ مگر تم الٹی گنگا بہاتے ہو، افشاء راز کی دھمکی دیکر یہ تم کس سے رشوت لینا چاہتے ہو۔ تم بناوٹی دنیا میں شاید یہ بھول چکے ہو اب دن ہمارے آنے والے ہیں۔

ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہم خباثت کے آستانوں کو ڈھائیں گئے۔ ہم ضامنِ افتراقِ تحائف بن جائیں گئے۔ دنیا کو بتائیں گے تمھاری محنت تلوے چاٹ رہی ہے۔ وہ دن ہم اپنی کوشش سے لائیں گئے۔ جدید درسگاہوں کے قدیم نسخے جلائیں گئے سوائے تہذیب، ادب، تاریخ و مذہب کے۔ ہم نا ارسطو پڑھیں گئے نا جابر کا نام لیں گئے۔ ائنسٹائن کے نسخے بھی بیکار سمجھیں گے، ہواوں میں اڑتے طائر ہمارے اشاروں پہ ناچیں گے، درختوں کے پتے پٹ جڑ کے موسم میں بھی سر سبز ہوں گے۔ جب طوق غلامی ملت اترا دے گئی و اللہ!

کلوخ سے ہم سونا بنائیں گے، گرویدہ دنیا ہو جائے گئی۔ تمام دوائی و جراحی جو نابودیِ لاغرِبدن ہے۔ خاطرِعلاج ہم سے گورے لینے آئیں گے۔ ہم بھی پانی کے چند قطروں میں چینی و نمک ڈال کے سامان علاجِ کینسر قرار دینگے۔ اپنے ہاں کے کسی دھاتی سے ایذز کے لیے CART ویکسین بنوائیں گے۔ حسبِ ضروت گدھے اور کتے کے خلیوں سے پولیو کے قطرے بنائیں گے اور جوشاندہ کرونا توڑ ویکسین قرار دے کے پلائیں گئے۔ علاج کے نام پہ انگریز کو خوب اُلو بنائیں گے۔ جب خوداری و خود انحصاری خود میں لائیں گے باخدا! یہ سب کچھ کر پائیں گے۔

گلگتی شُوقہ، پشاوری چپل، سندھی اجرک اور پنجابی پگڑی کو مارکیٹس کی زینت بنائیں گے تو مغربی دنیا ترقی یافہ دنیا کی رویتی لباس سمجھ کے خریدے گی۔ اسلامی واقعات کی تھری ڈی فلمیں بنائیں گے۔ اس دن میں اپنے خواہش کے بل بوتے پر Evolution پہ بات کروں گا! میں انسانوں کو ابنِ آدم قرار دوں گا اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں ڈارون کو "اولادِبندر" قرار دوں گا۔

قابل غور نکتہ!

مجھے مغربی دنیا کچھ کہ سکیں گی اور وہ مفروضے اپنے بچوں کو سالوں سال رٹاوئیں گی اور آہستہ آہستہ ہم پوری دنیا کے اکلوتے وارث ہونگے۔ جب خوداری ائے گی تو یہ سب ممکن ہوگا!

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

By Mohsin Khalid Mohsin